آج بھی بھٹو زندہ ہے (حصہ پنجم،ششم)

حصہ پنجم

گزشتہ سے پیوستہ :  مسعود محمود کی ساکھ کو تسلیم کر لیا گیا اور ٹرائل اور اپیل کورٹس نے ان پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یقین کیا۔ تاہم، ایسے کئی عوامل تھے جن سے متنبہ ہونا لازم تھااوراس وعدہ معاف گواہ کے بیان کو پرکھنے والوں کو یہ سامنے لانا چاہیے تھا کہ مسعود محمودصرف اپنی ذات کے لئے کام کرنے والا، خود کو محفوظ رکھنے والا، اخلاقی طور پر دیوالیہ، اور جھوٹا گواہ ہے۔ جیسا کہ مسعود محمود نے کہا کہ میاں محمد عباس نے قصوری کو قتل کرنے کے لئے بھٹو کی ہدایات پر عمل نہیں کیا، لیکن انہوں نے کوئی وضاحت پیش نہیں کی کہ انہوں نے کیوں نافرمانی کی اور اس طرح کی نافرمانی کا کوئی نتیجہ نہیں بھگتنا پڑا۔ تاہم مسعود محمود کے حکم کی تعمیل میاں محمد عباس نے کی جنہوں نے اس سے قبل وزیراعظم کی نافرمانی کی تھی۔ مسعود محمود کی طرف سے پیش کی گئی سازشی تھیوری پر بغیر کسی ثبوت کے یقین کیا گیا۔ مسعود محمود نے بھٹو کی قربانی دے کر اپنی آزادی اور ملک سے باہر جانے کا راستہ محفوظ کیا۔ ایسے شخص کے طرز عمل سے ایک ہوشیار آدمی چوکنا ہو گا لیکن مسعود محمود کی ساکھ پر ان لوگوں نے سوال نہیں اٹھایا جن کا عدالتی فرض تھا کہ وہ اس سے مطمئن ہوں۔
 سزائے موت کو راغب کرنے والے تین جرائم، سیکشن 302  یعنی قتل، سیکشن 307 یعنی قتل کی کوشش اور دفعہ 111  یعنی اکسانے کے بارے میں بھٹو کے خلاف کوئی براہ راست ثبوت نہیں تھا۔ یہاں تک کہ حالاتی شواہد بھی نہیں تھے، جو بھٹو کی بے گناہی کو رد کردیتے۔ استغاثہ کا سارا مقدمہ ہی مسعود محمود اور میاں محمد عباس کے بیانات پر بنایا گیا تھا تاہم میاں محمد عباس اپنے اعترافی بیان سے مکر گئے اور اس کے برعکس گواہی دی۔
عدالت میں منفی فرانزک رپورٹ جمع کروائی گئی، حملے میں استعمال ہونے والے آتشیں اسلحے سے نکالے گئے گولیوں کے خول، فیڈرل سیکورٹی فورس کے زیر استعمال کسی بھی ہتھیار سے مماثل نہیں تھے۔ تصدیق کے لیے کوئی مثبت ثبوت پیش کیے بغیر  استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ انہیں تبدیل کیا گیا تھا ۔ بہر حال، استغاثہ کے اس دعوے کو قبول کر لیا گیا، اور مزید یہ خیال کیا گیا کہ مبینہ تبدیلی بھٹو کے کہنے پر کی گئی تھی۔ جسکا ثبوت بھی استغاثہ کے پاس موجود نہ تھا۔ بھٹو کے دفتر میں موجود دستاویزات کو سامنے رکھ کر غیرمعمولی کوشش کی گئی کہ من مانی کا نتیجہ نکال کر مرضی کے معنی نکالے جائیں اور پھر انہیں ملزمان کے خلاف استعمال کیا جائے۔ جس طریقے سے ٹرائل کیا گیا وہ منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے خلاف تھا، اس طریقہ کار نے معقول شک سے بالاتر جرم قائم کرنے کے بنیادی اصول کو ختم کر دیا۔ اپیل کورٹ کا اکثریتی فیصلہ، جو 963 پیراگراف پر مشتمل تھا، جو کسی بھی فوجداری مقدمے میں شاید سب سے طویل فیصلہ ہے،  نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اپیلٹ کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے پہلے یہ مان کر کہ چار شریک ملزمان اور دو وعدہ معاف گواہ ساتھی نہیں بلکہ گواہ تھے، اور پھر یہ کہتے ہوئے کہ (اس مکمل طور پر غلط مفروضے پر) کہ انہیں تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔
مسٹر قصوری نے انہیں نشانہ بنانے کا جس مقصد کا حوالہ دیا وہ مسٹر بھٹو کے ساتھ ان کے سیاسی اختلافات تھے۔ مسٹر قصوری نے مسٹر بھٹو کی قومی اسمبلی میں 3 جون 1974 کی تقریر اور ان کے درمیان الفاظ کے تبادلے کو جرم کا محرک قرار دیا۔ اس مقصد کی تائید کے لیے قومی اسمبلی میں دیگر تقاریر کا بھی حوالہ دیا گیا اور ان پر انحصار کیا گیا۔ یاد رہے یہ جائز نہیں ہے کہ قومی اسمبلی کی کارروائی پر عدالت انحصار کرے کیونکہ آرٹیکل 66(1) کے مطابق آئین میں کہا گیا ہے کہ ’’کوئی رکن پارلیمنٹ میں کہی گئی کسی بھی چیز کے سلسلے میں کسی بھی عدالت میں کارروائی کا ذمہ دار نہیں ہوگا‘‘۔ اس آئینی شق اور ارکان پارلیمنٹ کو ملنے والے تحفظ پر بھی غور نہیں کیا گیا۔ مسٹر قصوری نے کہا کہ وہ مسٹر بھٹو کے مخالف تھے پھر بھی انہوں نے جو کہا اس پر یقین کیا گیا۔
 قصوری نے اپنے والد کے قتل کا ذمہ دار بھٹو کو قرار دیا لیکن 1977 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پی پی پی کے ٹکٹ کے لیےبھٹو سے درخواست دینے میں کوئی عار محسوس نہ کی تھی۔ قصوری نے کہا میں نے اس سال قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے پی پی پی کے ٹکٹ کے لیے درخواست دی تھی، تاہم انہیں ٹکٹ سے نوازا نہیں گیا۔ مسٹر قصوری نے اپنے بیانیے اور اعتبار کو خود مجروح کیا۔ انہوں نے مسٹر بھٹو کی سربراہی میں دوبارہ پی پی پی میں شمولیت اختیار کی، جس بھٹو پر انہوں نے خود الزام لگایا کہ انکے والد پر قاتلانہ حملہ کرکے جان لے لی تھی۔ مسٹر قصوری نے یہ کہہ کر اس تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے ایسا خود کو بچانے کے لیے کیا۔ اس وضاحت کو قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب ان کے والد 1974 میں مارے گئے تھے تو انہوں نے بہادری سے کام لیا تھا اور سازش اور قتل کے الزام میں وزیراعظم کو بطور ملزم نامزد کیا تھا لیکن بعد میں ان پر بزدلی طاری ہوگئی تھی۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ وہ اپنے والد کے قتل کے بعد نامزد ملزم بھٹو سے پی پی پی کا ٹکٹ کیوں مانگے گا۔ اس نے جو جواز پیش کیا وہ ناقابل تلافی اور ناقابل یقین تھا۔ ٹرائل کورٹ کے لیے ضروری تھا کہ وہ مسٹر قصوری کی بے ہودہ وضاحتوں کی چھان بین کرتی اور اپیلٹ کورٹ اس سلسلے میں ان کی ریکارڈ شدہ گواہی کا تجزیہ کرتی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا۔ یاد رہے استغاثہ کے کیس کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ بھٹو نے قصوری کے والد کو قتل کروایا۔ تاہم انکے بیٹے احمد رضا قصوری کے طرزعمل اور بیانات نے استغاثہ کا کیس بہت حد تک خود ہی خراب کردیا تھا۔ (جاری ہے۔۔۔۔)

حصہ ششم

گزشتہ سے پیوستہ : پولیس کو اس جرم کی پہلی اطلاع میجر علی رضا نے دی جو مقتول قصوری کے دوسرے بیٹے تھے انہوں نے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس لاہور اصغر خان کو فون کرکے مطلع کیا۔ تاہم اس وقت ایف آئی آر درج نہیں کی گئی اور جب ایف آئی آر درج کی گئی تو اس میں میجر علی رضا کا بطور شکایت کنندہ حوالہ نہیں دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میجر علی رضا کو بطور گواہ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ ٹرائل کورٹ کے ساتھ ساتھ اپیل کورٹ نے اس واضح بے ضابطگی پر توجہ ہی نہ دی۔ احمد رضا قصوری نے جرم کے تقریباً تین گھنٹے گزر جانے کے بعد ایک تحریری شکایت جمع کروائی، جس میں انہوں نے مسٹر بھٹو کا ذکر کیا۔ ایف آئی آر 11 نومبر 1974 کو صبح پونے چار بجے درج کی گئی، جس میں میجر علی رضا کی بجائے احمد رضا قصوری کو شکایت کنندہ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ اور استغاثہ نے الزام لگایا کہ ایف آئی آر کے مندرجات کو بنیاد بنا کر ایک سازش کی گئی تھی، جس کو عدالتوں نے بلاشبہ قبول کر لیا۔ یہ ایک اور پہلو تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے قانون اور آئینی تحفظات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
بھٹو کے ساتھ تمام شریک چھ ملزمان کو جنرل ضیاء کے اقتدار سنبھالنے اور مارشل لاء کے نفاذ کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ان سب نے اعتراف جرم کر لیا تھا۔ اس حیرت انگیز اتفاق کو نہ تو ٹرائل کورٹ اور نہ ہی اپیل کورٹ نے غیر معمولی سمجھا اور نہ ہی کبھی اس بات پر غور کیا گیا کہ آیا یہ اعترافات قابل پذیرائی ہوسکتے ہیں۔ ملزمان میں سے دو کو معاف کر دیا گیا اور انہیں وعدہ معاف گواہ بنا لیا گیا۔ ایک نے ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنا اعتراف واپس لے لیا لیکن اسے اپیل کورٹ کے سامنے دہرایا۔ باقی تینوں شریک ملزمان نے اپنے دفاع کے لئے کسی وکیل کی خدمات بھی حاصل نہ کیں۔ جبکہ ٹرائل کورٹ نے ان تینوں کی نمائندگی کے لیے ریاستی خرچ پر ایک وکیل مقرر کیا، تاہم، ان کے وکیل ہر موڑ پر اپنے مؤکلوں کو قتل کے الزام سے بچانے کی بجائے ملوث کرنا چاہتے تھے۔ اور ملزمان کے ریاستی وکیل بھٹو اور انکے مؤکلوں کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے استغاثہ کے مقدمے کو تقویت دینے میں مصروف عمل دیکھائی دیئے۔ جبکہ ملزمان کے ریاستی وکلاء اور ٹرائل کورٹ کا فرض تھا کہ وہ ان تینوں شریک ملزمان کو سمجھائے کہ اعلیٰ افسر کے حکم کی پابندی کرنا قتل کے الزام کا دفاع نہیں ہے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں نو ججوں نے بھٹو کی طرف سے دائر اپیل کی سماعت شروع کی اور 30 جولائی 1978 تک سماعت کی، جس کے بعد 21 اگست 1978 کو سات ججوں نے اس کی سماعت کی اور انہوں نے 6 فروری 1979 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ نو ججوں میں سے ایک قیصر خان تھے۔ جو 30 جولائی 1978 کو اپنی پینسٹھویں سالگرہ پر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ آئین کے مطابق ایک ایڈہاک جج کی تقرری اس کی ریٹائرمنٹ کے تین سال کے اندر کی جا سکتی ہے، لیکن اپیل کی سماعت کے باوجود اسے تعینات نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں اپیل کنندہ یعنی بھٹو کی درخواست پر غور نہیں کیا گیا۔ ایک اور جج، وحیدالدین احمد، اس وقت بیمار ہوگئے جب اپیل سماعت کے آخری مراحل میں تھی اور انہیں صحت یاب ہونے میں تقریباً چھ ہفتے درکار تھے، لیکن کیس کو ملتوی کرنے اور دوبارہ کام شروع کرنے کا انتظار کرنے کے بجائے اپیل کی سماعت جاری رکھی گئی اور بالآخر جسٹس وحید الدین احمد کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا دیا گیا۔ یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ جسٹس قیصر خان کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایڈہاک جج کے طور پر کیوں تعینات نہیں کیا گیا اور اپیلٹ کورٹ نے جسٹس وحید الدین احمد کا بینچ میں دوبارہ شامل ہونے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر اپیل کورٹ کا فیصلہ متفقہ ہوتا تو یہ غیر ضروری ہوتا، لیکن جب چار ججوں نے سزا کو برقرار رکھا اور تین نے بھٹو کو بری کر دیا تو یہ انتہائی تشویشناک بات تھی۔
نئے آئین کے تحت فضل الٰہی چوہدری پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ آئین، صدر پاکستان کو کسی بھی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو معاف کرنے، معطل کرنے یا کم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ صدر فضل الٰہی چوہدری نے اپنی مرضی سے جنرل ضیاء الحق کو خط لکھا تھا جس میں ماورائے عدالت تحفظات کی وضاحت کی گئی تھی۔ تاہم، ہائی کورٹ نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے بھٹو کے وکیل کے ساتھ ناقابل فہم برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان حالات میں موجودہ کارروائی میں اس خط کو پیش کرنا اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، ہم اس طرح کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔ تاہم جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ صدر فضل الٰہی چوہدری کی جانب سے لکھے گئے خط میں ماورائے عدالت وجوہات کا ذکر کرنے کے باوجود بھٹو کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 45 کے مطابق کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ آئین و قانون کے تابع مناسب عمل کی ایک اور خلاف ورزی تھی۔جسٹس مشتاق حسین نے قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے لاہور ہائی کورٹ کے اس بنچ کی سربراہی کی جس نے بھٹو کو سزا سنائی تھی اور جسٹس انوار الحق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور اس بنچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے سزا کو برقرار رکھا تھا۔ ان دونوں ججوں کا عہدہ سنبھالنا کچھ غیر معمولی تھا۔ (جاری ہے۔۔۔)

articlecolumnsdailyelectionsgooglenewspakistansarzameentodayupdates
Comments (0)
Add Comment