منشا قاضی
حسب منشا
موت سب کے لیے اٹل ہے لیکن یہ اپنی اہمیت کی لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے چین کے مسیحا ماوزے تنگ کے ان کلمات میں ایک سبق ہے ۔
بعض شخص بہت چائے جاتے ہیں اور ان کی موت کا دکھ عام ادمی کی موت کی نسبت بہت زیادہ شدت سے محسوس کیا جاتا ہے رفیق ملت رفیق احمد باجوہ کی موت کا دکھ اج بھی بڑی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے 20 سال گزرنے کے باوجود بھی ایک لحظہ کے لیے اس مرد مومن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ نظام مصطفی کی تحریک کے ہراول دستے کے طور پر اپ کو مورخ فراموش نہیں کر سکتا ۔
تحریک نظام مصطفی کے داعی رفیق ملت کی صدائے بازگشت 21ویں صدی کے دوسرے عشرے میں بھی گونج رہی ہے ۔ اپ نے ملک میں قران و سنت کے نظام کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا اور اپ ملک میں قران و سنت کے نظام کے نفاذ کے داعی تھے قومی اتحاد کا منشور بھی یہی تھا ۔
ملک میں قران و سنت کا نظام نافذ کرنا ہے رفیق ملت رفیق احمد باجوہ کی اس کاوش کو نادیدہ قوتوں نے سازش میں بدل دیا وگرنہ اج صورتحال مختلف ہوتی ۔ رفیق احمد باجوہ مرحوم و مغفور کہا کرتے تھے کہ جہاں دلیل کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے اعتماد و ایمان بالغیب کی حدود شروع ہوتی ہیں
حقائق ۔ تخلیق خالق ہیں اور دلائل ناکافی نامکمل کاوش تخلیق ۔۔ اصول جزئیات میں نہیں ہوتے ۔ فنا کو لا فنا غیر مکمل کو مکمل اور ناقص کو کامل پر نہ فوقیت حاصل ہوتی ہے نہ ترجیح دی جا سکتی ہے ۔ ماؤں سے رشتہ دلیل کا نہیں ہوتا والدین تحقیق طلب نہیں ہوتے تسلیم و رضا اور دلائل پسندی متصادم کیفیتیں ہیں ۔ رفیق احمد باجوہ کے یہ گرانمایہ جملے جن میں انے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شادابی کا پیغام ملتا ہے
وہ فرماتے ہیں کہ سادگی خود اعتمادی کا انعام ہے اور تکلفات احساس کمتری کے کرب کو منور رکھنے کی ناکام انسانی کوشش انہی تکلفات نے انسانی زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے ۔ احساس عدم تحفظ انسان کو اپنے ارد گرد مختلف قسم کے حصار کھڑے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جسے ہم سامان تعیش کہتے ہیں وہ انسان اپنے عیش کے لیے نہیں اپنی دینی محرومیوں کو چھپانے کے لیے مہیا کرتا ہے اپك فرماتے ہیں کہ کیا یہ باعث حیرت نہیں کہ انگریز کی سامراجیت کا زمانہ تھا قانون اسی کا تھا تعلیم اسی کی تھی پھر بھی اس قوم نے علامہ اقبال اور ایک ہی فضا میں شاہین و گرگس کی پرواز کے انداز ہی مختلف نہیں ہوتے مقاصد بھی جداگانہ ہوتے ہیں رشوت دینے والے کی جیب میں نہیں اس کے ذہن میں ہوتی ہے اور لینے والے کے ہاتھوں پر نہیں اس کی نیت میں رکھی جاتی ہے قانون شکنی کی سزا دینے والے قانون سازی کی سزا سے کیوں اگاہ نہیں رفیق احمد باجوہ کے یہ گرانمایہ جملے میرے ائینہ ادراک پر رنگ و نور کی طرح برس رہے ہیں دشمن کے ہاتھوں مر جانے اور تاریخ کے ہاتھوں دفن ہو جانے میں وہی فرق ہوتا ہے جو قبل از موت مر جانے اور بعد از موت بھی زندہ رہنے میں ہوتا ہے نظام مصطفی کے داعی کو دنیا کی کوئی قوت راہ حق سے نہ روک سکی 21 اپریل کو سانگلہ ہل کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں چک نمبر 121 میں پیدا ہونے والے اس بچے کے بارے میں کون جانتا تھا کہ ایک وقت ائے گا کہ وہ پاکستان کی نو جماعتوں کی قیادت نظام مصطفی کی تحریک کو حرز جاں بنا لیں گے ۔ رفیق احمد باجوہ نے محروم طبقے کے لیے ہر میدان میں لڑائی لڑی عدالتوں میں تحریروں اور تقریروں میں اپ کی اواز ہمیشہ ظالم اور مظلوم کے درمیان حد فاصل بنی رہی ۔ رفیق احمد باجوہ کو اللہ تعالی نے طلاقت لسانی سے نوازا تھا وہ بولتے نہیں تھے موتی رولتے تھے چھوٹے چھوٹے جملوں میں گرانمایہ پیغام دینا اپ کا فن تھا اور اس فن میں وہ پوری طرح اتارو تھے ۔ میں نے جن جید خطباء کو تاریخ میں پڑھا ہے اور تقریبات میں سنا ہے ان میں مولانا ابو الکلام ازاد بہادر یار جنگ مرحوم مولانا ظفر علی خان امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور اغا شورش کاشمیری کے نام خطیبوں میں سر فہرست اتے ہیں اور شورش کاشمیری کے بعد رفیق احمد باجوہ اس قافلے کے اخری راھی تھے ۔ اپ اعلی تعلیم یافتہ بھی تھے لیکن اس سے کہیں زیادہ جو انہیں اعزاز حاصل تھا وہ والدین کے تربیت یافتہ تھے ان کی شخصیت کی بنیادوں میں جو اوصاف حمیدہ کا رنگ و روغن نظر ا رہا ہے یہ ان کے والدین کی تربیت کا فیض ہے اپ نے یونیورسٹیوں سے زیادہ فیض کی نظر سے اکتساب فیض حاصل کیا ہے
اقبال نے کہا تھا کہ
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو اداب فرزندی
رفیق احمد باجوہ مرحوم کہا کرتے تھے کہ وقت اور فاصلے کو شکست دینے کا ایک طریقہ تلاوت سورہ الفاتحہ بھی ہے یہ راز فاذکرونی اذکرکم میں بھی پنہاں ہے اور انا للہ وانا علیہ راجعون میں بھی مگر انسان اگر انے جانے اور چلے جانے یا چلے انے کے رموز سے اگاہ نہ ہو تو اس کا کلی طور پر فیض یاب ہونا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے رفیق احمد باجوہ نظر بہ ظاہر ایک انسان تھے لیکن وہ اپنی ذات میں ایک مکمل یونیورسٹی ادارہ اور ایک پوری جماعت تھے ۔ تقریر کرنا اور سانس لینا ان کے لیے یکساں تھا ۔ میں نے اپ کو اکثر کوہستانی وقار کی طرح خاموش دیکھا ہے لیکن جب وہ بولتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی مہ جبیں خرام ناز سے گل کترتی چلی جا رہی ہو انسان کا جی چاہتا تھا کہ وہ بولتے جائیں اور ہم سنتے جائیں ۔
فقط اسی شوق میں پوچھی ھیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں
ایسے جلیل القدر انسان قوموں کو نعمت کے طور پر ملتے ہیں اور کسی بڑے امتحان کے لیے چھین لیے جاتے ہیں ۔ رفیق احمد باجوہ کو بھی اس قوم سے چھین لیا گیا ۔میں نے حقیقی قوم پرستوں دانشوروں اور مفکروں کو ہمیشہ اپنی قوم کے ہاتھوں زہر کے پیالے پیتے دیکھا ہے ۔ رفیق احمد باجوہ نے لاکھوں لوگوں کو لطف تکلم سے اشنا کیا تھا ان میں سے کچھ بڑے لوگ اپنے اس محسن کے خلاف ہو گئے اور رفیق احمد باجوہ صاحب بڑے دکھ سے کہا کرتے تھے کہ
ایک تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہو بیٹھا
میں نے جو سنگ تراشا وہ خدا ہو بیٹھا
ان کے دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ پاکستان میں نظام مصطفی قائم ہو یہی نظریہ لے کر انہوں نے مختلف سیاسی و مذہبی نظریات رکھنے والی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور بہترین حکمت عملی سے 1977 میں نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان قومی اتحاد کے قیام کا اعلان رفیق احمد باجوہ کی رہائش گاہ شاد باغ میں کیا اور پھر پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے قوم کی امنگوں کا ترجمان بن کر تحریک نظام مصطفی کی بنیاد رکھی ان کی لازوال کاوش کو پوری قوم نے اعتماد بخشا قریب تھا کہ پاکستان میں نظام مصطفی نافذ ہو مگر ایک گہری سازش کے ذریعے اس عمل کو روک دیا گیا
اس موقع پر رفیق احمد باجوہ نے قوم کو تقسیم اور انتشار سے بچانے کے لئیے اپنے اپ کو سیاسی منظر سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بار پھر اپنی تحریروں کی رسول صلی اللہ کسی سے ڈکی چھپی نہیں تھی سیاسی منظر سے الگ ہونے کے باوجود وہ ملک کی چھوٹی سے بڑی عدالت میں عوام کے حقوق کے لیے برسر پیکار رہے اور انہوں نے عوام کے حقوق کے لیے کئی عدالتوں سے کئی ایسے فیصلے لیے جن میں ہر بار قانون کی نئی تشریح سامنے ائی
انہوں نے اپنی زندگی محروم طبقے کے پسے لوگوں کے لیے وقف کی ان کے دلیرانہ موقف کے باعث قانون کے ایوانوں میں رفیق احمد باجوہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا عدلیہ میں ان کی طرف سے یہ پیش کی جانے والی تشریحات کے قانونی حوالے اج بھی عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں
انہوں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ پیار محبت اخلاق اور عاجزی کا درس دیا اور اپنے اس اثاثہ کو لے کر وہ 13 جون 2004 میں اللہ کے حضور پیش ہو گئے . بڑی سادگی سے اج ان کی برسی مورخہ 13 جون 2024 منائی جا رہی ہے زندہ قومیں اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں اؤ مرحوم و مغفور کی روح کو ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کریں اور مرحوم کی روح کو بخش دیں
اسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ ء نورستہاس گھر کی نگہبانی کرے
اللہ تعالی رفیق ملت کے صاحبزادے رضوان رفیق باجوہ کو ہمت حوصلہ اور شکر کی دولت سے سرفراز فرمائے رفیق ملت رفیق باجوہ مرحوم کی روح کو ایصال ثواب کے لیے فیضان رسول مدرسہ کے پانی مہتمم پرنسیپل فضیلت ماب جناب قاری حافظ غلام یاسین قادری نے مدرسہ کے بچوں کے اذھان و قلوب پر رفیق ملت کے اقوال زریں مرقسم کر رہے ہیں اس موقع پر جناب محمد رضوان رفیق باجوہ نے سعادت مندی کی منتہا کر دی اس سعادت مندی کے عقب میں نیک سیرت والدین کی تربیت اور فیضان رسول کی نظر کا کمال ہے ان کی بیسویں برسی بڑی سادگی سے اج موقع 13 جون 2024 منائی جا رہی ہے زندہ قومیں اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں اؤ مرحوم و مغفور کی روح کو ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کریں
بلبل خاموش ہو گیا چہکتا ہوا
اج ان کی یاد میں پاکستان کی مساجد میں قران خوانی ہوگی اور ان کی روح کو ایصال ثواب کے لیے دعائے مغفرت کی جائے گی
اسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ ء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے