ہم اتنا بھی تو نہ کر سکے

تحریر: خالد غورغشتی

شب و روز سوشل میڈیا پر آن لائن رہنے والے پہلے اپنے علاقے پھر ملک اور دُنیا بھر کی پل پل کی خبریں رکھنے والے ہم وہی لوگ ہیں، جن کے سامنے روزانہ کئی لوگ قرضوں ،فاقوں اور امراض سے سسک سسک کر مر رہے ہوتے ہیں اور ہم ان کے سامنے سے گزر کر حال احوال تک دریافت نہیں کرتے۔ ان کے روزمرہ کے معاملات کیسے چل رہے ہیں؛ یہ پوچھنا تک گوارہ نہیں کرتے۔ افسوس آج ہمارے پاس جہاں بھر کی بریکنگ نیوز پر تبصرے اور شیئرنگ ہے مگر اردگرد بسنے والے کے لیے دو منٹ نہیں کہ ان کی خبر گیری کر سکیں۔ آج ہمارے سماج کی مثال اس دیوار کی مانند ہو چکی ہے؛ جسے ہر سال سب کو دکھانے کے لیے رنگین کر دیا جاتا ہے مگر افسوس اس خستہ دیوار کی حالت نہیں دیکھی جاتی کہ وہ کب گر جائے۔

کئی لوگ تو زندگی بھر ہم سے بات چیت کرنے کے لیے ترستے رہتے ہیں اور ہم ان سے ایسے منہ موڑ لیتے ہیں، جیسے انھیں جانتے ہی نہ ہوں۔

کس قدر دشوار ہوتا ہے؛ جب کوئی بندہ بیماریوں، قرض داریوں اور مجبوریوں کے ہاتھوں سسک سسک کر مر رہا ہوتا ہے اور سب اس کی بے بسی کا بے حسی سے تماشا دیکھتے ہیں اور جب وہ مر جاتا ہے تو سب رو دھو کر اس پر چالسیویں اور برسیاں کر کے اسے بخشواتے ہیں۔ خدارا زندوں کی قدر کیجیے، مرنے کے بعد تو انسان کو ایصال ثواب کے سوا کسی دنیاوی ہمدردی کی ضرورت نہیں رہتی۔

سید ضمیر جعفری کیا خوب اس منظر نامے کا نقشہ کھینچ گئے:

کبھی علم آدمی، دل آدمی، پیار آدمی
آج کل زر آدمی، قصر آدمی، کار آدمی

واقعی سچ میں آج کل انسانیت مر چکی ہے اور فقط مطلب زندہ رہ گئے ہیں۔ کون کس حالت میں ہے، کسی کو خبر نہیں، ہر فرد کی نگاہ سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا میں کھو کر بنگلہ، گاڑی اور مال و زر اکھٹا کرنے پر اٹک کر رہ گئی ہے۔ آج کے انسان کے سامنے کوئی سیلاب میں ڈوب کر مر رہا ہو، بھوک سے بلک بلک کر مر رہا ہو، کسی ٹریفک حادثے میں یا ناگہانی آفت کی صورت میں مر رہا ہو، وہ اسے ایک سوشل میڈیا کا ٹرینڈ سمجھ کر چند دنوں کی ہمدردی جتلا کر بھول جاتا ہے۔ اسے کسی انسان کے دُکھ اور مسائل سے کوئی ہمدردی نہیں رہی۔ اس لیے کسی نے کہا تھا، اگر لوگوں کو پتا چل جائے کل قیامت ہے تو راتوں رات مصلے مہنگے ہو جائیں گے۔ ہم نے ایسے بھی افراد کو دیکھا جو موت کے منہ سے لوٹے ہیں اور صاحب ثروت ہونے کے باوجود وہ کسی لاچار کی مدد کرنے کی بجائے انھی عیاشیوں میں مبتلا رہے، جن میں ان کی اکثر جوانی کے ایام گزرے تھے۔

ہمارے استاد صاحب فرماتے تھے، بیٹا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی مثال کتے کی دم جیسی ہوتی ہے جس کو سو سال بھی رکھو تو سیدھی نہیں ہوتی۔ ایسے ہی یہ لوگ بھی دس بار پیدا ہو کر آجائیں، وہی نفرتیں، وہی کدورتیں اور وہی کینے پھیلائیں گے۔

یہاں یہ مثال کس قدر صادر آ رہی ہے کہ ہم میں سے کئی اشخاص ایسے ہیں، جن کی عمر اسی برس کی ہوگئی اور ان کے قبر میں پاؤں ہیں لیکن آج بھی وہ مسلسل وہی بغض پھیلا رہے ہیں؛ جو بچپن میں ان کو سیکھایا گیا تھا۔ لڑکپن میں ان کے ذہنوں میں ڈالا گیا تھا۔ اسی وجہ سے آج اکثر گھروں میں گورے کالے، امیر غریب، میرے تیرے، جائیدار اور اولاد کی وجہ سے نسل در نسل کینہ، حسد اور بغض چلا آ رہا ہے۔ جس میں کمی آنے کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

جن لوگوں نے نسل در نسل آپس میں آستین کے سانپ پال رکھے ہوں، ان کو باہر سے نہیں اندر سے بدلنے اور اپنے آپ سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کب تک نفرتوں کے بیچ بو بو کر معاشرے کو تباہی کے دھانے پر پہنچاتے رہیں گے۔ آج سب اپنے دلوں سے مخلوق خدا کے لیے نفرتیں نکال دیں، کل ہمارا معاشرہ خود بخود خوش حالی کی طرف گامزن ہوگا۔ اللہ کریم ہمیں معاف کرنے اور دوسروں کے ساتھ حُسن خلق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Comments (0)
Add Comment