تھائی لینڈ اک مثال

تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی

میں نے آج کے آرٹیکل میں تھائی لینڈ کو بطور مثال اس لیے پیش کیا ہے کہ پاکستان اور تھائی لینڈ میں کئی ایسی باتیں ملتی جلتی ہیں جو موازنہ کرنے کے قابل ہیں۔ مثلاََ دونوں ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، دونوں ممالک میں سیاحت کا بہترین سکوپ ہے، دونوں ممالک میں انتہا پسندی کی لہر بھی دیکھنے کو ملتی رہی ہے، دونوں ممالک کی جمہوریتیں فوج کے عمل دخل سے پروان چڑھتی رہی ہیں، دونوں ممالک کا ماضی بعید میں ایک دور معاشی طور پر بہترین تھا اور ترقی کے سگنل مل رہے تھے، دونوں ممالک میں یا تو ہائبرڈ حکومت لائی جاتی ہے یا منتخب وزیر اعظم کو عدالت اور الیکشن کمیشن کے ذریعے نااہل کروا دیا جاتا ہے۔ منتخب وزرائے اعظم کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے ہے یا پھر اُنھیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی رہی ہیں۔ دونوں ممالک کی معیشت مندرجہ بالا باتوں کے باعث اتنی زوال پزیر ہوئ کہ جس سے عوام کی چیخیں نکل گئیں۔
اب موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہیں تو تھائی لینڈ کے مقابلے میں پاکستان روز بروز محوِ زوال ہے اور بد ترین معاشی حالت کے باعث عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ زرا سوچیے کہ دونوں ممالک کے ایک جیسے سیاسی، معاشی اور دیگر حالات جن کا میں نے اوپر تقابل کیا ہے کے باوجود تھائی لینڈ پھر بھی کیوں بہتر ہے اور پاکستان کیوں نہیں سنبھل پا رہا؟
زرا ایک اور تناظر میں دیکھتے ہیں کہ دسمبر 2004 کو تھائی لینڈ میں ایک ہولناک سمندری طوفان (سونامی) آیا جس سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ تقریباََ 9000 افراد کو سمندری طوفان نے نگل لیا۔ اسی طرح ستمبر 2006 میں یہاں نسلی فسادات پھوٹنے کے باعث مسلمانوں کی اک بڑی تعداد قتل ہوئی۔ دوسری طرف اکتوبر 2005 کو پاکستان میں بھی اک قیامت خیز زلزلہ آیا اور ہزاروں لوگ لقمہ اجل بننے کے ساتھ ساتھ بے گھر ہوئے۔ انتہا پسندی تو کبھی طالبان اور کبھی لسانی، نسلی اور عقائد کی بنیاد پر یہاں لگی ہی رہتی رہی ہے۔
پاکستان میں زلزلے کے حوالے سے اندرون ملک امداد کے ساتھ ساتھ باقی دنیا نے بھی لاکھوں اربوں ڈالرز کی امداد کی تھی لیکن اس کے باوجود لوگ سالوں تک بے گھر رہے جبکہ تھائی لینڈ میں سونامی کی تباہ کاریوں کے بعد ناقابل یقین حد تک انتہائی خوبی و تیزی سے متاثرہ علاقوں میں تعیر نو کا عمل مکمل ہوا۔ یہاں سے یہ نقطہ نمایاں ہوتا ہے کہ جن اقوام میں تعمیر نو اور سر اٹھا کے چلنے کا عزم جواں ہو اور جہاں بیورو کریسی سست روی نہ کرتی ہو وہاں قدرتی آفات بھی عوام کا عزم و حوصلہ نہیں توڑ پاتیں۔
دونوں ممالک میں اک مزید مماثلت یہاں جمہوریت کا بار بار متاثر ہونا اور مارشل لاء نافذ ہونا بھی ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ تھائی لینڈ کے عوام بہترین مارشل لاء کے مقابلے میں بد ترین جمہوریت کو بہتر سمجھتے ہیں جبکہ پاکستان کے عوام سوائے حالیہ حالات کے ہمیشہ آرمی کو خوش آمدید کہتے رہے ہیں۔ اسی طرح تھائی لینڈ میں ناراض اقلیتوں کے ساتھ ہر حکومت تعلقات بہتر کرنے کی مخلص کوششیں کرتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اس بنیاد پر سیاست کی جاتی ہے۔

کسی بھی معاملے میں مخلصانہ کوشش وہ بنیادی روح ہوتی ہے جو اثر رکھتی ہے۔ یہی بات ہے کہ تھائی لینڈ میں لاکھ معاشی تنزل کے باوجود قومیت کا عنصر موجود ہے جبکہ پاکستان میں اس کی شدید کمی ہے۔
تھائی لینڈ اور پاکستان میں سیاحت کا بہترین سکوپ ہونے کو تھائی لینڈ نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے ملک کو سیاحوں کے لیے اتنا پرکشش بنا دیا ہے کہ ہالی وڈ کی فلمیں اور مشہور مغربی گلوکاروں کے کنسرٹ بھی یہاں منعقد و عکس بند ہوتے ہیں۔ اربوں ڈالرز کا زر مبادلہ صرف سیاحت کی بدولت تھائی لینڈ کے خزانے کو حاصل ہوتا ہے۔ آپ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ 12 سے 14 ملین سالانہ ٹورٹس تھائی لینڈ کا وزٹ کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں سیاحت کے بہترین مقامات ہونے کے باوجود کوئی حکومت خاطر خواہ دلچسپی نہیں لیتی۔ زلزلہ و سیلابوں کے مواقع پر متاثرین کی بحالی و امداد کے سلسلے میں بیرون ممالک سے آنے والی این جی اوز کے ساتھ منسلک غیر ملکیوں کے بیانات کے مطابق پاکستان ان کے تصور سے بھی زیادہ حسین ہے اس لیے وہ ہر سال یہاں سیاحت کی غرض سے آنا چاہیں گے۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر اگر پاکستان کی حکومتیں بیرونی اداروں کے ساتھ مل کر اک جامع منصوبہ کے زریعے سیاحت کو فروغ دیں تو روزگار کے ساتھ ساتھ کثیر ترین زرمبادلہ کے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ زراعت جس کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے وہاں غریب کو سستا آٹا تک میسر نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اک جیسے حالات سے گزر کر ایک ملک کیسے سنبھل گیا اور دوسرا ملک بدترین حالات سے کیوں گزر رہا ہے؟
اس بات کا ایک ہی جواب ہے کہ پاکستان کو تھائی لینڈ کی کامیابی پیش نظر رکھتے ہوئے اسی کی طرح سب سے پہلے اپنی شرح خواندگی کو بہتر کرنے کے لیے تعلیمی معیار بہتر کرنا چاہیے، پھر ملک میں زرعی و صنعتی انقلاب لا کر برآمدات کا کلچر عام کرنا چاہیے، اسی طرح سیاحت کے شعبے کو خصوصی توجہ دیں تاکہ ملک میں زر مبادلہ آئے اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں جمہوریت کے فروغ اور بیوروکریسی کی سیاست کے بجائے ترقیاتی امور میں دلچسپی کی فضا ہونی چاہیے۔ میری نظر میں یہ باتیں اگر رواج پا جائیں تو اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو ترقی کے لیے کسی کی مثال لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ یہ خود پوری دنیا کے لیے اک مثال بن جائے گا مگر افسوس کے بظاہر ہنوز دلی دور است۔

Comments (0)
Add Comment