اداریہ

ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت

ملک میں عدم برداشت بڑھنے سے کئی المیے ہوئے ،مذہبی ہم آہنگی اور رواداری سے کام لیتے تو ہم کب کے ترقی کے راستے پر گامزن ہوتے ۔پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ دینے کے حوالے سے بھی دشمن کے ایجنٹوں نے مکروہ کرداراداکیا ہے ۔شرپسندوں نے کئی بار معمولی سے واقعہ کو بڑا کرکے پیش کیا جس سے خوف وہراس پھیلا اور ملک کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ۔اسی طرح اب سرگودھا میں توہین مذہب کے نام پر گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،تاہم اس بار بروقت کارروائی سے المیہ رونما نہیں ہوا ۔پنجاب کے ضلع سرگودھا کی مجاہد کالونی میں مشتعل ہجوم نے دو مسیحی خاندانوں کے گھروں پر حملہ کیا تاہم پولیس نے بروقت کارروائی کر کے دونوں خاندانوں کو ہجوم سے بچا لیا۔سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) اسد اعجاز ملہی نے بتایا کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر بے حرمتی کی وجہ سے پیش آیا لیکن علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہونے کی بدولت کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔انہوں نے بتایا کہ جب پولیس پہنچی تو ہجوم گھروں کے باہر جمع ہو گیا تھا، پولیس اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور تمام رہائشیوں کو بحفاظت باہر نکال لیا جبکہ مسیحی برادری کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے پورے شہر میں اضافی پولیس یونٹ تعینات کر دیے گئے ہیں۔ پولیس نے پرامن طریقے سے ہجوم کو منتشر کر دیا۔سوشل میڈیا فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل ہجوم نے خون میں لت پت شخص اور ایک نوجوان سمیت متعدد افراد کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور فرنیچر کے ساتھ توڑ پھوڑ کررہے ہیں جبکہ ایک اور ویڈیو میں ایک گھر کے باہر آگ کے الاؤ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن ڈی پی او سرگودھا نے دعویٰ کیا کہ یہ سب جعلی ویڈیوز ہیں اور واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ پولیس امن و امان کی صورتحال برقرار رکھے ہوئے ہے۔پولیس کے دعوے کے برعکس ایک زخمی شخص کے رشتہ دار نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ میرے چچا کی حالت تشویشناک ہے، وہ فوجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور اہلخانہ کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔اقلیتی حقوق مارچ نے کہا کہ واقعے کی ویڈیوز میں ’مقامی عالم دین کے اکسانے پر‘ ہجوم نے ایک 70 سالہ شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ اس شخص کے گھر اور فیکٹری کو نذر آتش کر دیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پنجاب پولیس جائے وقوع پر خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی جو اس امر کی جانب نشاندہی کرتی ہے کہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کو ان کی خفیہ منظوری اور حمایت حاصل تھی۔اس حوالے سے پنجاب پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سرگودھا کے ریجنل پولیس آفیسر شارق کمال، ڈی پی او اسد اعجاز ملہی اور دیگر پولیس حکام واقعے کی اطلاع ملتے ہی فوری طور پر موقع پر پہنچ گئے اور 10 جانیں بچانے کے ساتھ ساتھ حالات پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔واقعے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا، مشتعل ہجوم کے پتھراؤ سے 10 سے زائد پولیس افسران اور اہلکار زخمی ہوئے لیکن سرگودھا پولیس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اہل خانہ کو ہجوم سے بچا کر علاقے سے نکالا۔ پولیس کی بروقت کارروائی کی بدولت سرگودھا ایک بڑے سانحے سے بچ گیا اور اب شہر کی صورتحال مکمل طور پر پرامن اور کنٹرول میں ہے۔پنجاب پولیس امن کی فضا کو بحال کرنے میں موثر کردار ادا کرنے پر ضلعی امن کمیٹی کے اراکین اور مسیحی برادری کی تعریف کی۔ڈی پی او سرگودھا نے کہا کہ سرگودھا پولیس کے 2 ہزار سے زائد اہلکار اور جوان سیکیورٹی ڈیوٹی پر مامور ہیں، کسی کو بے امنی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور شہریوں سے درخواست ہے کہ شرپسندوں سے نمٹنے کے لیے پولیس کا ساتھ دیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سرگودھا میں رونما ہونے والے واقعے پر سیکریٹری داخلہ پنجاب نور الامین مینگل کو فوری جائے وقوع کا معائنہ کرنے کی ہدایت کی۔نور الامین مینگل امن و امان کی صورتحال، واقعے کی وجوہات اور تحقیقات کا جائزہ لیں گے اور انہوں نے تمام سینئر افسران کو حکم دیا ہے کہ وہ واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کریں۔انکا کہنا تھا کہ پاکستان ہم سب کا ہے، مذہب کی آڑ میں کسی بھی قسم کی ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی اور مکمل تحقیقات کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔سرگودھا کے ڈی پی او اسد اعجاز ملہی نے یہ اعلان کیا کہ ضلعی انتظامیہ کے افسران اور مسلم و اقلیتی برادریوں کے مذہبی اسکالرز پر مشتمل ضلعی امن کمیٹی صورتحال کا جائزہ لے کر بیان جاری کرے گی۔مذہبی اشتعال انگیزی کے واقعہ پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔اس واقعہ میں دوگھروں اور ایک فیکٹری کو جلایا گیا ہے ۔

Comments (0)
Add Comment