تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
دنیا منفرد ثقافت، ٹیکنالوجی اور بصیرت والے ذہنوں کے منفرد امتزاج کے ساتھ متحرک انفارمیشن ٹیکنالوجی شہروں سے بھری پڑی ہے۔ آئی ٹی سٹی کے حوالہ سے دنیا کے سرفہرست پندرہ شہروں میں سان فرانسسکو، ، سنگاپور، نیویارک ، تل ابیب ، بیجنگ ، لندن، شنگائی، ٹوکیو، بنگلور، ہانگ کانگ، آسٹن، سیٹل، بوسٹن، زیورخ، برلن شامل ہیں۔ یہ آئی سٹی اپنے اپنے ممالک کی معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبہ میں ان کے ہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ گائیڈ ہاؤس انسائٹس کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق سال 2032 تک ان سمارٹ شہروں میں سرمایہ کاری تین سو بلین ڈالر تک بڑھ جائے گی۔ ترقی یافتہ ممالک کوتو چھوڑیں ہمارے ہمسایہ بھارت کے شہر بنگلور میں قائم آئی ٹی سٹی دنیا کے بڑےاور کامیاب شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ صرف سال 2022 میں، بنگلور میں مقیم اسٹارٹ اپس نے 10 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری حاصل کی۔ یاد رہے بنگلور کا ہندوستان کا آئی ٹی دارالحکومت بننے کا سفر 1970کی دہائی میں شروع ہوا جب ہندوستانی حکومت نے شہر کے آئی ٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنا شروع کی۔ اس سرمایہ کاری نے ٹیکساس انسٹرومنٹس اور آئی بی ایم جیسی ملٹی نیشنل فرموں کو اپنی طرف متوجہ کیا جنہوں نے بنگلور میں آر اینڈ ڈی مراکز قائم کیے۔ انہی وجوہات کی بناء پر متعدد بھارتی شہری دنیا جہاں کے آئی ٹی سے متعلقہ اداروں کے سربراہ بن چکے ہیں۔ مگرافسوس ستر کی دہائی میں آمر ایوب خان اور یحیی خان کی لگائی ہوئی آگ کی بدولت وطن عزیز دولخت ہوا پھرباقی ماندہ موجودہ پاکستان میں امن قائم ہوا غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھلنے شروع ہوئے تو ستر دہائی کے آخیر میں آمر ضیاءالحق نے غیر آئینی و غیر قانونی طریقہ سے منتخب حکومت پر شب خون مارا پھر اسی موصوف نے امریکہ سوویت یونین جنگ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جسکا خمیازہ آج تک پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔ بنگلور کے آئی ٹی سیکٹر میں سال دو ہزار کی دہائی میں توسیع ہوئی ، خاص طور پر عالمی مالیاتی بحران کے دوران بنگلور کی آئی ٹی فرموں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا،مگر افسوس اسی دہائی میں پاکستانی حکومت پر قابض اک اور آمر پرویز مشرف نے امریکہ افغان جنگ میں افغانیوں اور پاکستانیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہم غیروں کی لڑائیوں میں پڑ کر مفت کی ذلالت خریدتے رہے اور ہمارا ہمسایہ ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہمسایہ سے ہی کچھ سبق سیکھ لیا ہوتاتو آج دنیا بھر میںقائم آئی سٹیز میں پاکستان کےبھی کسی شہر کا نام نمایا ں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں ناں کے دیر آید درست آید،گذشتہ دنوں صوبہ پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز شریف نے اک پروقار تقریب میں پاکستان کے پہلے آئی سٹی کے قیام کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ اس تقریب میں چین، امریکہ، ترکی و دیگر کئی ممالک کے سفیروں نے شرکت کی۔ آٹھ سو ترپن ایکٹر پر محیط آئی ٹی سٹی لاہور میں آئی ٹی اینڈ ٹیک ڈسٹرکٹ، نالج سٹی اور فلم سٹی بھی ہوگا۔ نالج سٹی میں انٹرنیشنل یونیورسٹیاں کیمپس بنائیں گی ۔ آئی ٹی سٹی میں نوجوانوں کیلئے انکیوبیٹرز بھی بنا کر دیئے جائیں گے۔ پاکستان کے پہلے آئی سٹی کے قیام کے بڑے اور اولین مقاصد میں دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں چار سو ارب روپے کی سرمایہ کاری کے لئے ترغیب دلانا، بیس لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا اور ٹیکس فری زونز بنانا ہے۔ یقینی طور پر اس طرح کے منصوبے ایک پائیدار، ترقی پذیر معیشت اور پاکستان کے مستقبل کی کلید ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ٹی کے شعبہ میں دنیا کی مشہور ترین کمپنیاں سرمایہ کاری کرنے آ رہی ہیں۔ سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کے لئے دس سال تک ٹیکس فری زون قرار دیا گیاہے۔ پاکستان کے چاروں وزرائے اعلی کا تقابل پیش کیا جائے تو یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہ ہوگی کہ صرف مریم نواز شریف ہی اپنے صوبہ کی ترقی اور عوام کی فلاح بہبود کے کاموں میں سرگرم عمل اور متحرک نظر آتی ہیں۔ ورنہ تو بلوچستان کے عوام اپنے وزیراعلی کی خیر خبر سننے کو خود ترس رہے ہیں۔ دوسری جانب خیبرپختونخواہ کے وزیراعلی کی بات کی جائے تو موصوف کا وفاق اور مخالف سیاسی قیادت کے خلاف بھڑکے مارنے کے علاوہ کوئی کام دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ سندھ کے وزیر اعلی اپنی روایتی رفتار سے حکومتی امور چلاتے دیکھائی دے رہے۔ اپوزیشن رہنماوں کی جانب سے مریم نواز شریف کے خلاف ہونے والی روایتی بیان بازی ہماری سیاسی روایت کا حصہ ہے۔ آئی سٹی کے قیام پر اپوزیشن کا اس شہر کے نام پر اعتراض کرنا عین فطرتی عمل ہے باقی اس عظیم منصوبے پر تنقید کرنا فضول عمل قرار پائے گا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کے صوبوں کو بے حد خودمختاری حاصل ہے۔ ضرورت صرف امر کی ہے کہ وفاق اور صوبائی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان اور صوبوں کی عوام کی بہتر سے بہترین خدمت کی جائے ۔ سیاسی بیان بازی کی بجائے حکومتی کارکردگی کا مقابلہ کیا جائے۔ یاد رہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور لنگر خانے جیسے پروگراموں کے ذریعہ پاکستانی قوم کو بھکاری اور ہڈ حرام بنانے کی بجائےکارآمد شہری بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ آج چین اور بھارت نے بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنی سب سے بڑی کمزوری بنانے کی بجائے کارآمد انسانی وسائل بنا کر دنیا جہاں سے اربوں ڈالر سمیٹنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ جس رفتار سے پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے اس آبادی کو کارآمد بنانے کے لئے جنگی بنیادوں پر طویل مدتی منصوبوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے ریاست پاکستان کے تمام متعلقین بشمول پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اکٹھا ہوناوقت کی اشد ضرورت ہے۔