ہم اور ہمارے مسائل

دنیا کی گہما گہمی اور مصنوعی چمک دمک میں ہم
اکثر اپنے ارد گرد کے چہروں کی حقیقت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں ہر فرد اپنی پریشانیوں، مشکلات اور کمزوریوں کا سامنا کرتا ہے، مگر ایک خاموش خوف اسے دوسروں کے سامنے اپنی زندگی کی حقیقی مشکلات ظاہر کرنے سے روکتا ہے۔ اس خوف کا بنیادی سبب ہماری عدم اعتمادی کی کیفیت ہے۔ ہم میں سے بیشتر افراد اپنی تکالیف کو دل میں چھپائے رکھتے ہیں، اس خوف کے تحت کہ اگر ہم کسی کے سامنے اپنی مشکلات بیان کریں گے تو وہ ہمیں کمزور سمجھے گا۔
یہ خوف اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی شخص سے مشورہ لینے میں ہچکچاتے ہیں، ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کو ظاہر کریں گے تو سامنے والا ہماری قابلیت کو سوالیہ نشان بنا دے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کا رویہ ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی کو تباہ کن بنا رہا ہے۔ جب ہم اپنے مسائل کسی کے ساتھ بانٹنے سے کتراتے ہیں، تو ہم نہ صرف اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں، بلکہ اپنے آپ کو ایک خطرناک مقام پر لے آتے ہیں جہاں ہم مسائل کا سامنا کرنے کے بجائے ان میں اور الجھ جاتے ہیں۔
ہماری معاشرتی زندگی میں اس طرح کے رویے کی سب سے بڑی وجہ ہمارے درمیان موجود اعتماد کا فقدان ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کریں گے، ہم معاشرتی رشتہ داریوں کو مضبوط نہیں کر پائیں گے۔ اس خوف سے نجات حاصل کرنے کے لیے آج کے دور میں جہاں ان گنت مسائل ہمارے معاشرے اور ہماری ذاتی زندگی کو گھیرے ہوئے ہیں وہاں ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر بات کریں، اپنی مشکلات کا سامنا کریں اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار ہوں۔ چینی فلسفی کنفیوشس نے کہا تھا، “اگر آپ جلدی چلنا چاہتے ہیں تو اکیلے چلیں، لیکن اگر آپ دور تک جانا چاہتے ہیں تو سب کے ساتھ چلیں۔” اس قول کا مطلب یہ ہے کہ کامیابی اور ترقی چاہے معاشرے کی ہو یا انفرادی ، صرف انفرادی کوششوں سے نہیں حاصل ہوتی، بلکہ ہمیں اپنے معاشرے کے افراد کے ساتھ مل کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے. جب ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تو نہ صرف اپنی مشکلات کا حل نکال پاتے ہیں بلکہ ایک مضبوط اور ہم آہنگ معاشرتی نظام کی بھی توقع کر سکتے ہیں
ہم سب زندگی میں مختلف مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ کبھی یہ مشکلات مالی ہوتی ہیں، کبھی ذاتی یا ذہنی پریشانیاں، اور کبھی یہ مشکلات ہمارے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہوتی ہیں۔ ہم سب ایک ہی چکی میں پس رہے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ان مشکلات کا سامنا اکیلے ہی کرنا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، ایک دوسرے سے مشورے لیں، تو ہم نہ صرف اپنی زندگی کی مشکلات کو بہتر طور پر حل کر سکتے ہیں، بلکہ ہم اپنے معاشرتی مسائل کا بھی خاتمہ کر سکتے ہیں۔
ہم سب اس دکھاوا اور بناوٹ کے گرداب میں پھنس چکے ہیں جہاں ہم دوسروں کے سامنے اپنی حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بناوٹ نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے، اور ہم نے اپنی انسانیت کی اصل حقیقت سے خود کو بیگانہ کر لیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنا درد اور غم شیئر کرنے سے کتراتے ہیں، جب کہ ہمیں اپنے معاشرتی روابط کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی حقیقت اپنی ناکام کوششوں کو دوسروں کے سامنے بے خوف ہو کر پیش کرنا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے دکھوں میں شریک ہو سکیں اور مل کر ان کا حل تلاش کر سکیں۔
زندگی کا مقصد صرف اپنی خوشی تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں دوسروں کی خوشی اور سکون کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ ایک مشہور مصنف ہیلن کیلے نے کہا تھا، “دنیا میں سب سے بڑی چیز محبت اور اعتماد ہے، جب ہم یہ دونوں کسی کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو ہم ایک دوسرے کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔” ہم سب کی زندگی کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اعتماد کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا اور ایک دوسرے کی مشکلات میں شریک ہونا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ
آج کے جدید معاشرتی ڈھانچے میں انسانوں کی بڑھتی ہوئی تنہائی ایک اور۔ ایسا المیہ ہے جس نے تقریبا ہر ایک شخص کے ذہنی سکون اور تندرستی کو متاثر کیا ہوا ہے. ٹیکنالوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا کی دنیا میں جتنا قریب آنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اتنا ہی ہم اپنی حقیقت سے دور اور اندرونی طور پر تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ فرد اپنے دکھوں اور دردوں کو سوشل میڈیا پر ظاہر کرتا ہے، مگر ان سطحی روابط سے حقیقی تعلق اور ذہنی سکون حاصل نہیں ہو پاتا.اس سے نہ صرف انسان ذہنی دباؤ اور پریشانیوں میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے، بلکہ انفرادی طور پر اسے احساسِ تنہائی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔
یہ تنہائی اور اکیلاپن انسان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، جس سے مختلف ذہنی مسائل جنم لیتے ہیں جیسے کہ اضطراب، ڈپریشن اور مایوسی۔ معاشرتی تعلقات میں کمی، دوستوں اور خاندان کے ساتھ گزرے وقت کا فقدان اور باہمی روابط کی کمی انسان کو ایک ذہنی قید میں بدل دیتی ہے، جہاں وہ اپنی مشکلات کا حل تلاش کرنے کے بجائے ان سے اور زیادہ جکڑتا جاتا ہے۔
اس بات کو مزید حقیقت بنانے کے لیے ہم عالمی سطح پر مشہور اداکار روبن ولیمز کی زندگی سے ایک دل دہلا دینے والی مثال لے سکتے ہیں۔ روبن ولیمز، جو دنیا بھر میں اپنے کامیڈی اور اداکاری کی وجہ سے مشہور تھے، اپنی زندگی کے آخری حصے میں ذہنی مسائل اور اکیلے پن کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کی کامیابیوں کے باوجود، ان کی اندرونی دنیا میں شدید اضطراب اور ڈپریشن تھا، جو انہیں اس مقام تک لے آیا جہاں انھیں اپنی زندگی کے دکھوں کا مقابلہ کرنے کے لیے

Comments (0)
Add Comment