پاکستانی ادب کے معمار: ڈاکٹر شیخ محمد اقبال شخصیت اور فن

قسط نمبر:4 (شاہد بخاری)
بہر حال اب سفر جاری ہو چکا تھا اور میٹرک کا امتحان (1961)درجہ اول میں پاس کرنا اس طویل مسافت کا پہلا سنگِ میل تھا اور پھر ہاتفِ غیبی نے کچھ قندیلیں میرے ہاتھوں میں تھما دیں لیکن اندھیرا اب بھی بہت تھا، قندیلوں کی کچھ بن نہ پڑتی تھی سوائے اس کے اب مجھ میں شوقِ فضول اور جرأتِ رندانہ پیدا ہو چکی تھی، کالج کا تجربہ اتنہائی خوف آگیں نظر آتا تھا ۔نہ کتابیں تھیں نہ ضروری سامان اور نہ سرمایہ لیکن ہمت کی قندیلیں مایوسی کے اندھیروں کو کم کرتی جارہی تھیں۔ چنانچہ 1961گورنمنٹ کالج جوہر آباد میں سالِ اول کے طالب علم کی حیثیت سے داخل ہو گیا۔ دو سال کا عرصہ چشمِ زدن میں گزر گیا،اس آفاقی حقیقت پر یقین قوی تر ہوتا چلا گیا، خداان کی یقینا مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور جو مشکلات کے سمندر کا ساحل پر کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہتے ہیں ان میں موجوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر زندگی ایک بار ملتی ہے تو موت بھی ایک بار ہی آتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے ان تاثرات کا اظہار میں اس لئے کر رہا ہوں کہ ان دنوں کسی نابینا کے لئے بیناؤں کے ساتھ مل کر پڑھنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ نہ کیسٹس کی سہولت موجود تھی اور نہ ہی کوئی جدید قسم کی بریل ٹائپ رائٹر موجود تھی اور نہ ہی کوئی حکومت آج کی طرح نابینا طالب علم کو خصوصی وظیفہ دیتی تھی لیکن میں تھا میرا حوصلہ تھا اور میرے اساتذہ کا تعاون تھا:
کچھ لوگ تھے ساحل پہ کھڑے کانپ رہے تھے
طوفان تھا، میں تھا، مرا مٹی کا گھڑا تھا
تعلیمی سیشن کے آخر میں مجھے مختلف سر گرمیوں میں حصہ لینے پر چھ اوّل انعام دیئے گئے رول آف آنر سے سرفراز کیا گیا اور ایف۔ اے کا امتحان 1963 میں سیکنڈ ڈویژن لے کر پاس کر لیا اور تعلیمی وظیفے کا مستحق ٹھہرا۔ ربِ ذوالجلال کا کرم مجھ پر بدستور جاری تھا کہ میں جب بھی سوچتا ہوں میری جبیں میں ہزاروں سجدے تڑپنے لگتے ہیں،خدا بے سہاروں کا یوں سہارا بنتا ہے۔ اب مجھے اپنی منزل صاف نظر آنے لگی تھی اب کوئی بھی یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ میری پیدائش کسی گناہ کی پاداش میں ہوئی ہے کیونکہ اب میرا دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ پر سبقت لے چکا تھا۔میں 1963 میں بی اے کرنے کے لئے گورنمنٹ کالج سرگودہا میں داخل ہوا۔۔۔ میں نے1965 میں بی اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کر لیا اور انگریزی ادب میں وظیفے کا مستحق ٹھہرا،جب میں نے ایم اے انگریزی کا ارادہ کیا تو میرے اپنے اساتذہ جو میرے انگریزی طرزِ تحریر اور طرزِ اظہار کے معترف تھے۔ میرے اس فیصلے کے متطلقاً حق میں نہ تھے۔ میرا موقف یہ تھا اگر کوئی میرا ہم جماعت     ایم اے انگلش کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں کر سکتا؟ایم اے کے لئے میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج لائل پور (فیصل آباد) میں داخلہ لیا اور بفضل ربی میں نے1967 میں ایم اے انگلش کا امتحان درجہ دوم میں اپنے کالج میں اول اور یونیورسٹی میں پانچوں پوزیشن حاصل کر کے پاس کر لیا،اس کے ساتھ ساتھ مجھے کالج میں رول آف آنر بھی ملا“
ڈاکٹر اقبال کا یہ بیانیہ ان کے عزم صمیم اور ان کے والد کی محنت ِشاقہ اور والہانہ محبت کا پتہ دیتا ہے۔ ایم اے انگلش کرنے کے کوئی ایک ہی برس میں انہیں گورنمنٹ کالج سرگودہا میں انگریزی کا لیکچرار متعین کر دیا گیا۔یاد رہے کہ وہ پاکستان بھر میں پہلے نابینا تھے جنہیں یہ اعزاز ملا، ملازمت کا ذکر بعد میں تفصیل سے ہو گا۔ یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ علم کی تشنگی ڈاکٹر صاحب کے دل میں بدستور قائم رہی، انہوں نے1971 میں ایم اے اردو اور ایم فل 1993 میں کر لیا، اس امتحان میں انہوں نے کلاس فرسٹ حاصل کر کے گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ بعد ازاں اسی یونیورسٹی یعنی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے2002 میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ان کا پی ایچ ڈی کا تھیسز تھا:
The Impact of English Poets on Iqbal(علامہ اقبال پر برطانوی شعراء کے اثرات)
ان کی تشنگی علم جاری و ساری ہے اور وہ ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کے قائل ہیں، پڑھنا اور پڑھانا ان کی زندگی کا جزوِ لاینفک بن گیا ہے. یوں ایک نابینا بظاہر بے بس بچہ ایک روشن چراغ بن کر ضوفشاں ہوا اور اس کی روشنی کی کرنیں اب وطنِ عزیز کو جگمگا رہی ہیں۔
ڈاکٹر شیخ اقبال حصولِ علم کے دوران میں اپنے بعض اساتذہ کا بڑی عقیدت سے ذکر کرتے ہیں کہ اگر ان کی رہنمائی اور محبت نہ ہوتی تو وہ اپنے علمی مقاصد حاصل نہ کر سکتے۔
  شیراں والا گیٹ لاہور کے نابیناؤں کے لئے سکول میں جس استادِ محترم کا انہوں نے بڑی عقیدت سے ذکر کیا ہے،وہ سید باقر علی شاہ صاحب ہیں اپنی کتاب“ دیدہ و دل‘‘ کا انتساب انہوں نے انہی کے نام کیا ہے انتساب کچھ یوں ہے۔
”استادِ محترم سید باقر علی شاہ (مرحوم) کے نام جو نابینا تھے لیکن اپنے ہر نابینا طالب علم کو بینائی عطا کرتے تھے“
ایف اے میں جن اساتذہ نے انہیں بہت متاثر کیا ان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے پروفیسر عبداللہ صاحب تھے۔ بنیاد حسین نقوی صاحب سے اگرچہ انہوں نے زیادہ نہیں پڑھا لیکن ان کی شخصیت سے ڈاکٹر صاحب بہت متاثر ہیں، پروفیسر رفیع اللہ خان صاحب(پرنسپل) کا ذکر تو ڈاکٹر اقبال نے اپنی سوانح میں بڑے احترام سے کیا ہے کیونکہ وہ نہ صرف ان کے استاد تھے بلکہ ان کے رہنما بھی تھے اور محسن بھی۔اسی طرح پروفیسر مرید حسین علوی اور صاحبزادہ عبدالرسول سے بھی وہ بڑے متاثر ہیں۔ایم اے انگریزی کے دوران انہیں بہت اچھے اساتذہ ملے جن میں ایم ایم قریشی صاحب نے بالخصوص انہیں بڑا متاثر کیا اور پروفیسر سعید الحسن رضوی صاحب نے تو قدم قدم پر ان
Comments (0)
Add Comment