تحریر: صفدر علی خاں
قصور کے بے گناہ قیدی مظہر فاروق نے چند برس قبل میڈیا کے ذریعے عدالتوں سے سوال کیا تھا کہ” کوئی جج میری زندگی کے قیمتی 22سال واپس کرسکتا ہے؟ ۔22سال قید کاٹنے کے بعد نومبر 2016ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے قتل کے ایک مقدمے میں اسے باعزت بری کردیا جس میں 18سال پہلے انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی ۔مظہر فاروق کے مطابق پہلے اسے ہائیکورٹ میں اپیل کی شنوائی کیلئے 11سال انتظار کرنا پڑا ،جب بات نہ بنی تو سپریم کورٹ کے در پر دستک دی مگر یہاں بھی انصاف کی باری آتے آتے مزید 10برس جیل کی تنگ و تاریک کال کوٹھڑی میں بیت گئے ،انصاف ملنے تک آدھی جائیداد وکیلوں کی فیسوں کی نذرہوگئی ،ججوں سے 22سال مانگنے والے مظہر فاروق کی طرح ہزاروں متاثرین کی کہانیاں ناقص عدالتی نظام کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ مظہر فاروق بڑا خوش قسمت ہے جس نے جیل میں گریجویشن مکمل کرکے باعزت بری ہوکر نئی زندگی کا آغاز تو کیا،یہاں تو بے شمار بے گناہ عدالتی نظام کی سست روی اور تاخیر کے سبب پھانسی چڑھ گئے ،میری نظر میں محمد اقبال جیسے کئی بدقسمت ایسے بھی ہیں جن کی اپیل پھانسی چڑھنے کے بعد لگتی ہے ۔چند دن قبل سوشل میڈیا کی نظر بنے ایک مقدمہ نظر سے گزرا جس کے مطابق محمد اقبال بنام سرکار کے عنوان سے مقدمے کی سماعت میں سپریم کورٹ نے رواں سال 17اپریل کو اپیل کی سماعت کا حکم جاری کیا ہے مگر محمد اقبال کی سزائے موت پر کب کا عملدرآمد ہوچکا تھا ۔پاکستانی عدالتی نظام کے نقائص دور کرنے کے ملک بھر کی بارزایسوسی ایشنز شور مچاتی رہتی ہیں اور مطالبے منوانے کیلئے ہڑتالیں کرکے عدالتی امور میں مزید تاخیر کا سبب بھی بن جاتی ہیں مگر صورتحال جوں کی توں ہی ہے۔ کسی بھی عدالت میں جاکر دیکھ لیں لوگ انصاف کیلئے کس طرح دھکے کھارہے ہیں ،ایک ایک عدالت کے پاس سو سو مقدمات لگے ہوئے ہیں ۔سخت دبائو اور کرپشن کی کہانیاں طشت ازبام ہیں ۔76برسوں سے عدالتی امور میں مداخلت کا سلسلہ جاری ہے ۔عدالتوں کے حوالے سے گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے پچھلی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں ۔عدلیہ میں نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کی ضرورت ہے مگر وہ ایک ایسا جن ہے کہ دوبارہ دوبارہ ہماری ضرورت بن کر سامنے ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ججز کی سنیارٹی کو نظر انداز کرکے اپنے ججز لانے کی خواہش بھی شروع سے ہی چلی آرہی ہے اسی خواہش نے نظریہ ضرورت کی شکل میں ملک کو بحرانوں میں دھکیلا اور آج تک ان بحرانوں سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکا ۔اب 44سال بعد بھٹو ریفرنس پر عدالتی رائے نے سابق وزیراعظم کی بے گناہی ثابت کردی ،تاہم انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں رکاوٹ بننے والوں کے لئے کچھ نہیں کہا گیا ۔جس ملک میں وزرائے اعظم کو انصاف ملنا محال رہا ہو وہاں عام آدمی کے لئے بروقت ،سستے انصاف کی فراہمی کیسے ممکن ہوگی ؟.
پاکستانی سماج میں چھوٹے بڑے نزاعی امور عدالت کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں ،لیکن اس ایوان میں پیش ہونے کی شروعات مقدمہ درج ہونے سے ہوتی ہے ۔عام آدمی کو اپنے کسی مسئلے پر مقدمہ درج کرانے کیلئے بھی جان جوکھم میں ڈالنا پڑتی ہے ،کیونکہ تھانوں میں ستم زدہ لوگوں کی شنوائی نہیں ہوتی ،اسکے ساتھ ہزاروں ایسے مقدمات ہیں جن میں پولیس کی جانب سے نامکمل یا غلط تحقیقات ،عدالتوں سے مقدمے کے فیصلے میں برسوں کی تاخیر یا غلط سزائوں کا سبب ہیں۔روزانہ ایسے درجنوں مقدمات کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں جن میں کئی بے گناہ شہریوں کو برسوں قید و بند کی تکالیف سے گزر کر عدالتوں کے ذریعے بری کیا جاتا ہے ۔آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ،اس کا ازالہ بھی نہیں ہوسکا ۔پاکستان میں “مس کیرج آف جسٹس ایکٹ “نامی کوئی شے موجود ہی نہیں ۔اس لئے ریاست یا نظام میں نقص یا غلطی کی وجہ سے کسی شہری کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ نہیں ہوسکتا ۔اس حوالے سے عدالتی نظام میں اصلاح سب سے مقدم ہونی چاہئے ۔حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ” چاہے کتنے ہی گناہ گار چھوٹ جائیں تو فرق نہیں پڑتا مگر کسی ایک بے گناہ کو ملنے والی غلط سزا پوری ریاست پر بھاری ہوگی “مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا “تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں”ونسٹن چرچل نے بھی ٹھیک ہی کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف کررہی ہیں تو پھر ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہم ضرور سرخرو ہونگے “ان حالات میں اب پاکستان کے نظام عدل کو دیکھیں تو اسے مکمل طور پر شفاف اصلاحاتی عمل سے گزارنے کی ضرورت ہے ۔مقدمات میں تاخیر کے خاتمے کی خاطر مربوط اور موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جب نظام انصاف کی غیر جانبدارانہ طریقے سے تطہیر ہو جائے گی تو پھر عدالت عالیہ کے کسی جج کو خط کے ذریعے دبائو کی شکایت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور معاشرے میں دن بدن پھیلنے والی خرابیاں بھی درست ہونگی ۔