کالم۔ ہر عمل کا ردعمل

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

شعر وادب کی خوبصورتی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہر دور کے حالات وواقعات کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ بلکہ سارا کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک وقت تھا جب شعرو شاعری کے دامن میں بجز حسن وعشق کے کچھ بھی نہیں تھا اور یہ ایک خوبصورت موضوع تھا جس میں کیف وسرور، رونق میلہ، سوزوگداز، غیرت ویرت، جذب ومستی، میلہ ٹھیلہ، کاروکاری، کورٹ میرج، شہنائی ونائی اور طلاق ولاق وغیرہ وغیرہ۔ بات تو حسن وعشق کی ہوئی تھی لیکن اس کی ککھ سے بے شمار موضوعات نے جنم لے لیا بلکہ ایک شاعر نے تو یہ کہہ کر سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔ ع۔ پیار دی کہانی لوکو کتھے آکے مک گئی۔۔ہاسیاں توں شروع ہوئی تے ہنجواں تے مک گئی۔ شاید زندگی بھی ہنسی اور رونے کے درمیان درمیان رہتی ہے۔ ( غم ہے یا خوشی ہے تو۔۔۔۔میری زندگی ہے تو) درحقیقت غم اور خوشی کا نام ہی زندگی ہے۔ جو ہمت کرتے ہیں وہ آگے بڑھ کر منزل کو جپھہ ڈال لیتے ہیں اور سوچنے والے سوچتے رہ جاتے ہیں اور بقول شاعر( کچی ٹٹ گئی جنہاندی یاری۔۔۔تے پتناں تے رون کھڑیاں) پتن بھی عجیب لانچنگ پیڈ ہے کسی کو پار گزارنے کا سبب بنتا ہے اور کسی کا وہاں پاوں پھسل جاتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی ویسے تو اپنے خدوخال کے اعتبار سے سگی بہنیں ہوتی ہیں بس فرق اتنا ہے کہ ( اکناں نوں رنگ چڑھ گیا۔۔اک راہے گئے امن و اماں) شہنائیاں شاعری کو خوبصورت بناتی ہیں لیکن اس کے آنگن میں سوزو گداز دو دلوں کے درمیان سماج کے آنے سے پیدا ہوتا ہے۔ کیدو ویسے تو مکروہ کردار ہے لیکن وارث شاہ کی ہیر کہانی اس کے رویے کی وجہ سے ہی پنجاب کے کلچر کا آئینہ دار بنی ہے۔ ورنہ ہیر رانجھا ایک ہو جاتے اور پھر بس۔ خیر بس تو مرزا صاحباں کی ہو گئی تھی جب مرزا نے گھوڑی کو نیل ماردیا تھا اور پھر صاحباں نے اس سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے نیل کی چابی گم کردی تھی۔ ویسے چابی کا گم ہونا قرین قیاس ہے ایک شاعر نے تو مرزا کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا( میری بقی توں ڈرن فرشتے تے میتھوں ڈرے خدا) لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ اونچا بول بڑوں بڑوں کو لے دے جاتا ہے لہذا مرزا صاحباں کا انجام مذکورہ مصرعے کے مزاج سے ہی نظر آرہا ہے۔ اب اللہ جانتا ہے کہ شاعر نے مرزا کے جذبات کو زبان دی ہے یا پھر بات کا بتنگڑ بنایا ہے جو بھی ہوا ہے یہاں آ کر بات مک گئی ہے اور اس کے بعد شاعروں نے بھی ادھر ادھر منہ مارنا شروع کردیا اور شاعری کا دامن موضوعات کے پھولوں سے مکمل طور پر اس وقت تک بھر گیا ہے۔ ہوا میں تیر چلا چلا کر جب شعرائے کرام بالکل ہی تھک گئے تو ادب برائے زندگی کا دور شروع ہوا پھر تے اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے کے مصداق زندگی کا کچا چٹھا سوائے استثنیات کھل کے ہمارے سامنے آگیا۔ جاگیردار اور کاشتکار، سرمایہ دار اور مزدور، ماں پیو اور دھی رانی، افسر اور ماتحت بلکہ ہر چھوٹا بڑا۔ ادیبوں نے قصے کہانیوں میں بڑوں بڑوں کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کردی اور وہ بھی بڑے سیانے تھے انہوں نے قومی اور بین الاقوامی مشاعروں کی محفلیں سجائیں اور شاعروں ادیبوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے لفافے تھما دیئے۔ خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا۔ اچھا تو ٹھیک ہے ہم کسی اور کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ موضوع کا کینوس بڑا وسیع اور جامع ہے۔ ویسے تو مرحوم غالب نے اپنے شعراء بھائیوں کو بہت پہلے ہی مشورہ دیا تھا کہ( ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو۔۔بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر) اس مشورے پر عمل کرنے سے سانپ بھی مر جائیگا اور لٹھ بھی بچ جائیگی اور ویسے بھی لٹھ کو بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے بصورت دیگر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ بانسری نے ہی دل کے تار کھڑکانے ہیں اور سب ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے قریب سے چیزیں دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے اور قریب آنے سے اوہلہ اترنے کا بھی قوی امکان ہوتا ہے۔ اوہلے اور میک اپ میں انیس بیس کا فرق ہوتا ہے۔ فرق محسوس کرنے سے ہی کوالٹی کے بہتر ہونے کا امکان ہے۔ شاعر تو بڑے ہی حساس ہوتے ہیں وہ ہر چیز کو سمل کر لیتے ہیں اور علم وادب کی مارکیٹ کے اتار چڑھاو پر بھی ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ لہذا موضوعات کے تنوع میں ہی ان کی بقا ہے۔ اور جب وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں پھر تو ٹی ہاوس کی سیاسی مارکیٹ میں بھی بھونچال آجاتا ہے۔ یہ حضرات بہت ہی سیانے ہوتے ہیں اور ہر مرد کے سب سے زیادہ قریب تو اس کی بیوی ہوتی ہے اور دونوں کی کوئی چیز بھی ایک دوسرے سے چھپی ہوئی نہیں ہوتی ہے لہذا ایک نیا اور اچھوتا موضوع۔ عام حالت میں گھر گھر کل کل اور ہر وقت لڑائی مارکٹائی۔ شاعری کی تو ایک اپنی زبان ہوتی ہے۔ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ شعر وسخن کے ایک نئے دور کا آغاز اور موضوع بھی گھر گھر کا۔ آو مشاعرہ سجاتے ہیں اور کھل کھلا کر بیوی کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہاسے کا ہاسا اور بغاوت کی بغاوت۔ ایسی صورت حال میں اس کی مدد کو بھی کوئی نہیں آئے گا اس کے سارے آپشن ختم ہوجائینگے۔ یا تو وہ صبر شکر کرے گی اور آنکھیں بند کر لے گی اور مرد کھلا کھائے گا ۔ روز آنکھ دکھاتی تھی بلکہ شروع میں تو اس نے آنکھ مار کر ہی شوہر نامراد کو یہ کوڑا گھونٹ بھرنے پر مجبور کیا تھا اور پھر ہم کو کلی طور پر مجبور محض بنا دیا تھا اب ہمارے دل ودماغ سے کام لینے والوں نے مل کر ہم سب کی نمائندگی کردی ہے( اک دن پیکے جا نیں بیگم۔۔آوے سکھ دا ساہ نیں بیگم)
کمال حکمت عملی۔ ہر پاسے ہاسے ای ہاسے۔ ٹھٹے

Comments (0)
Add Comment