آنکھوں دیکھی کانوں سنی آنسوؤں کے چراغ از ڈاکٹر مظہرعباس رضوی

(شاہد بخاری)

کچھ قارئین جانتے ہی ہوں گے کہ مرثیہ لفظ رثی سے مشتق ہے ،جس کے معنی آہ و بکا کرنا ہوتے ہیں مرنے والے کے فضائل و خصائل اور اقارب و احباب کی تعزیت کا ذکر شاعر جب اشعار میں نہایت رقت آمیز اور پردرد انداز میں کرتا ہے تو وہ مرثیہ کہلاتے ہیں لیکن اصطلاحن مرثیے کا اطلاق حضرت امام حسین اور دیگر شہیدان کربلا کے مصائب و آلام کے منظوم ذکر ہی پر ہوتا ہے۔ مرثیہ کا خاص مقصد سانحہ کربلا کا غم منانا اور ان معصوم شہداء کی یاد میں رونا رلانا ہوتا ہے۔
اسلام میں سنی العقیدہ فقہ کے مطابق مرنے والے کا سوگ منانا اور میت کے لیے آہ و گریہ کرنا درست نہیں اس کے باوجود غم کے مواقع پر رونا اور آنسو بہانا انسان کی فطرت میں ہے، اس لیے آں حضرت صلی الللہ علیہ وسلم نے رونے سے منع نہیں فرمایا بلکہ اپنے بیٹے حضرت ابرا ہیم کی وفات پر آپ خود رو پڑے تھے ۔سنی العقیدہ کے علی
الرغم اھل تشیع کے یہاں یہی عمل نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحسن اور باعث اجر و ثواب سمجھا گیا ہے چناں چہ اثنا عشری طبقے میں ماہ محرم الحرام میں مجالس تولا اور تبرا کا اھتمام کیا جاتا ہے۔”تولا” نظم میں مرثیہ بن گیااور تبرا کی وجہ سے مرثیہ کے وزن پر” ہر سیہ”گوئی وجود میں آئی ۔اس میں فضائل ائمہ کی بجائے رذائیل دشمنان اہل بیت کا ذکر ہوتا ہے۔
ادب عالیہ میں مرثیہ ہی ایک ایسی صنف ہے جس میں مذہب و ادب کا امتزاج اتنی خوبصورتی سے ہوا ہے کہ دونوں( مذہب و ادب) ایک دوسرے کے لیے اس میدان میں لازم و ملزوم قرار پاتے ہیں۔ مرثیہ نگار شعراء نے یہاں ادبی رعنائی کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی تقدس کو مجروح نہیں ہونے دیا۔
مرثیہ میں جہاں گریہ انگیزی، ماتم گساری اور آہ و بکا کو ایک جانب ذریعہ تزکیہ قرار دیا گیا ہے تو دوسری طرف یہ دعوت فکر دی گئی ہے کہ عظمت انسانیت کی بجلیاں مصائب و آلام کے آسمانوں ہی میں مکی چمکتی ہیں اور اس کی شوکت کی شاہراہ میدان کرب و بلا ہی سے گزرتی ہے۔کربلا کا وہ عظیم سانحہ اسی وجہ سے راہ انسانیت کے لیے مشعل ہے۔
اسی میدان میں حقانیت کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ یہاں خیر و شر کا تصادم ہوا تھا حق و باطل کی اس ستیزہ کاری نے یہ فیصلہ کر دیا کہ حق پسندمر کر بھی زندہ جاوید رھتے ہیں۔اور باطل پرست کی زندگی پر ان کی موت شرمندہ رہتی ہے۔
انسانی تاریخ کے اس عظیم المیہ نے جسے واقعی
کربلا کے نام سے موسوم کیا جاتا ھے، انسانی تہذیب و تمدن اور سیاست و معاشرت پر اپنے اثرات ڈالے ہیں اور اب ادب پر اپنے نقوش مرتسم کیے ہیں۔ادب پر یہی ارتسام نقش مرثیہ کہلاتے ہیں،جن میں عوام نے اپنی روحانی تسکین کو تلاش کیا،روح ایمان کی بالیدگی اور قوت اس سے حاصل کی ۔
حضرت محمد صلی الللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد
عربی مرثیہ میں کافی تبدیلی آئی۔مسلمان ھونے کے بعد،حضرت خنساء کے مر ثیوں کا رنگ بھی بدل گیا ۔پہلے آپ اپنے بھائی کے قتل کا انتقام لینے کے لیے مرثئیے لکھا کرتی تھیں، اب اس لیے مرثئیے لکھتی ہیں کہ افسوس میرا بھائی اسلام کرنے سے قبل مر گیا اور اب جہنم کی آگ میں جلتا ہوگا ۔عربی ادب میں حضرت امام حسین کے کہے ہوئے مرثئیے موجود ہیں ۔حر بن یزید الریاحی کے غم میں یہ مراثی اپ نے کہے تھے ۔
عربی کے بعد ایسے مرثیہ گو بھی گزرے ہیں جنہوں نے اہل بیت کی مدح اور ان کے مصائب کے غم میں مرثیہ کہنے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مدح اہل بیت کی خاطر مظالم برداشت کرنے والے شعرا میں فرزدق، عبداللہ بن عمار برقی اور عبداللہ بن عمار برقی اور عبداللہ بن عفیف وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔
سانحہ کربلا کے کم و بیش چار سال بعد 65 ہجری میں حضرت امام حسین کے انتقام کے لیے “توابین” نامی ایک جماعت وجود میں آئی تھی جس میں 10 ہزار نوجوان سر سے کفن باندھے ہوئے نکلے تھے۔ اس گروہ میں شعرا بھی تھے ان میں عبداللہ بن الاحمر کے مرثئیےکافی مقبول و مشہور ہوئے۔ شہیدان کربلا کے مرثیے کہنے والے عربی شعرا میں کمیت بن زید اسدی، عبداللہ بن غالب، امام شافعی، مہیار، المعری، اور سعد بن محمد وغیرہ کا شمار ہوتا ہے
فارسی مرثیے کی تاریخ بھی بڑی خوں چکاں ہے۔ صفویہ خاندان کے دور حکومت میں سیاسی حالات مستحکم ہوئے تو شیعت کو دوبارہ عروج حاصل ہوا۔ اسی خاندان کے حکمران طہماسپ شاہ کے عہد میں محتشم کاشی جیسے فارسی کے مشہور و معروف مرثیہ گو نے اپنے مرثیوں سے ایران کے عوام میں جذبہ حریت پیدا کر دیا تھا۔ مقبل اصفہانی اور طوفان ما زند رانی کے مر ثئیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ عرفی شیرازی، نظیری فیضی اور طالب آملی وغیرھم نے بھی فضائل و مکارم امام حسین میں قصیدے اور مرثیے کہے۔
دور جدید میں بھی فارسی ادب میں مرثیے کی روایت کو بر قرار رکھا گیا۔پور داؤد اور وحید دست
گری جدید مرثیہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔
اردو مرثیہ دکن کی سرزمین پر پروان چڑھا شاھان دکن عموماً شیعت کے پرستار رہے ہیں ۔اسی مذہبی رشتےکی وجہ سے ایران سے ان کے تعلقات کے استوار ہو گئے تھے۔ان ھی تعلقات کی بنا پر دکن میں میں ایرانی تہذیب و ادب کے اثرات یہاں کے ادب پر مرتب ہوئے اور عزاداری و مرثیہ نگاری کو فروغ حاصل ہوا ۔شیعت کا اثر اگرچہ سندھ اور گجرات میں دکن سے پہلے پھیلا تھا اور وھاں سندھی، ملتانی اور گجراتی زبانوں میں مرثئیے لکھے اور پڑھے جاتے رھے تھے،جو محفوظ نہ رہ سکے۔
ڈاکٹر مظہر عباس رضوی زمانہ طالب علمی ھی سے شعر کہہ رہے ہیں۔ان کی شاعری کی ابتدا ظرافت نگاری سے ہوئی زندگی کی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے کے لیے انہوں نے طنز و مزاح کا سہارا لیا۔ان کا موضوع زندگی کے عمومی مسائل کے علاوہ شعبہء طب بھی ہے ان

Comments (0)
Add Comment