تحریر ؛۔ جاویدایازخان
یوں تو مرغی انڈہ بچپن سے ہمارے ذہنوں میں موجود ہوتا تھا ۔پہلے قاعدے میں “م ” سے مرغی اور پھر مرغی انڈوں سے منسوب بے تحاشا کہانیاں نصاب میں شامل ہوا کرتی تھیں ۔مختلف نظموں اور کہانیوں میں مرغی اس کے بچوں اور انڈوں کا تذکرہ بچے بڑے شوق سے پڑھتے تھے ۔سونے کا انڈہ دینے والی مرغی اور چوزے کی کہانی بڑی بھلی معلوم ہوتی تھی ۔مرغی اور انڈے کے بارے میں ہمیشہ ایک سوال ہمیشہ سوال ہی آتا رہا ہے کہ “پہلے مرغی پیدا ہوئی تھی کہ انڈہ پیدا ہوا تھا “؟بچپن سے بڑھاپے تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا ۔بہرحال مرغی اور انڈہ بطور خوراک اور کاروبار کے لحاظ سے ہمارے معاشرے اور گھروں کی تاریخ کا ہمیشہ سے بڑا اہم حصہ رہے ہیں ۔کہتے ہیں کہ مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے امیر ترین بننے کا خواب شیخ چلی نے بھی دیکھا تھا ۔ویسے یہ کاروبار کسی کرپشن کے بغیر بھی ہمیشہ اچھی آمدنی اور منافع دیتا رہا ہے دنیا میں ۔بل گیٹس جیسےبڑے لوگوں نے بھی اس کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔
آج سے پچاس ساقبل تک مرغی اور انڈہ ہماری روزمرہ غذا کا حصہ نہیں ہوا کرتا تھا ۔انڈہ کھانے کے لیے بیمار کو ڈاکٹربطور دوا تجویذ کیا کرتے تھے جبکہ مرغی کسی بہت ہی خاص مہمان کے اعزاز میں پکائی جاتی تھی یا انہیں افسران کو بطور رشوت پیش کیا جاتا تھا ۔اس وقت صرف پالتو دیسی مرغی ہوا کرتی تھی ۔ہمارے دادا جان اگر کسی بہت ہی خاص موقع پر مرغی پکانے کا اہتمام کرتے تو خود دیکھ کر صحت مند اور موٹی تازی مرغی خرید کر لاتے تھے ۔اسے اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے اور ہم بچوں کو بھی مرغی ذبح کرنے اور بنانے کا طریقہ سکھاتے تھے ۔مرغی سال میں ایک آدھ دفعہ ہی پکائی جاتی تھی ۔یہ دیہاتوں میں دیسی انڈے حاصل کرنے کے لیے پالی جاتی تھیں ۔یہ صرف اس وقت فروخت کی جاتیں تھیں جب یا تو یہ انڈے دینا بند کردیں یا پھر نر مرغوں کی تعداد بڑھ جاے ٔ ۔البتہ انڈے فروخت کے لیے شہر لاے جاتے تھے ۔ہماری دوکان کے ساتھ ہی مرغی انڈے ٔ کی دوکان ہوا کرتی تھی جو دیہاتیوں سے یہ مرغی اور انڈے کوڑیوں کے بھاوُ خریدتے اور ان میں سے صحت مند مرغی اور اچھے انڈے لکڑی کے بنے کریٹوں میں پیک کرکے بذریعہ ٹرین کراچی بجھواے ٔ جاتے تھے کیونکہ یہاں انکا ریٹ بہت کم ملتا تھا ۔کراچی پہنچتے پہنچتے چوتھائی حصہ شدید گرمی سے یا تو مر جاتا یا پھر زبردستی ذبح کر لیا جاتا تھا ۔اسی طرح انڈوں کی بڑی تعداد بھی اکثر خراب ہوجاتی تھی ۔اس زمانے میں صحت مند مرغی اور انڈے کو چیک کرنے کے بڑے عجیب عجیب طریقے ہوا کرتے تھے ۔مختصرا” اگر کہا جاے کہ اس زمانے میں مرغی اور انڈہ غریب آدمی کے دسترخوان کا حصہ نہیں ہوتا تھا تو یہ درست ہو گا ۔البتہ مرغی انڈے کا کاروبار ایک منافع بخش کام سمجھا جاتا رتھا اور اسکے نقصان سے بھی لوگ ہیرو سے زیرو ہوتے دیکھے ہیں ۔فارمی یا برائلر مرغی کا تصور بالکل نہیں تھا ۔لوگوں کی ترجیح مٹن اور بیف ہوا کرتا تھا ۔لیکن رفتہ رفتہ پروٹین کی اہمیت اور ضرورت میں اضافہ ہونے لگا اور مرغبانی ایک شوق اور چھوٹے موٹے کاروبار سے بڑھ کر ایک انڈسٹری میں بدل گئی اور جدید پولٹری فارمنگ نے بے حد عروج پایا ۔سائنس کی ترقی نے اس کی پیداوار میں اسقدر اضافہ کردیا اور اسے دیگر پروٹین کی نسبت بہت سستا کردیا کہ آج کوئی دسترخوان چکن کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔چکن آج پورے معاشرے میں ہر فرد کی ضرورت بن چکا ہے ۔ دوسری جانب عوام کی ضرویات اور مجبوریوں کے پیش نظر اس کی فراہمی اور پیدوار کا شعبہ ملک کی بڑی انڈسٹری اور کاروبار کے ساتھ ساتھ ایک دولت کمانے کا بڑا مافیا بھی بن چکا ہے ۔جس کی باگ دوڑ اشرافیہ نے اپنے کنٹرول میں رکھی ہوئی ہے ۔اس کاروبار کی نبض پر ایک مخصوص طبقے کا ہاتھ ہوتا ہے جو اس کے روز مرہ مارکیٹ ریٹ کا تعین کرتا ہے ۔انہیں مارکیٹ اور عوام کی مجبوریوں کا پتہ ہوتا ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی طلب کب اور کیسے بڑھتی ہے ۔جوں جوں مرغی اور انڈے کی پیدوار بڑھ رہی ہے توں توں ان کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں ۔جس کی وجہ وہ ان کی مہنگی خوراک اور بڑھتے ہوے پٹرولیم مصنوعات کے ریٹ کو گردانتے ہیں ۔بظاہر حکومت مرغی اور انڈے کے ریٹ کنٹرول کرنے یا مناسب سطح پر قائم رکھنے میں ناکام نظر آتی ہے ۔لیکن پولٹری کی صنعت اورانڈسٹری کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ یہ تو آج غریب وامیر سب کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی خوراک بن چکی ہے ۔
ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کاجن بےقابو ہوچکا ہے کھانے پینے کی عام اشیاءبھی عام آدمی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں ۔مہنگائی کی ماری بےبس عوام کے پاس ایک ہی ہتھیار رہ گیا ہے کہ جو چیز مہنگی ہو اس کا بائیکاٹ کردیا جاے ٔ یعنی اس کی طلب میں کمی اور رسد میں اضافے سے اس چیز کے ریٹ کم ہو سکیں ۔اس سے قبل رمضان المبارک کے دوران جب فروٹ کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی تھی تو ایک ہفتہ فروٹ کے بائیکاٹ نے اپنا اثر دکھایا اور فروٹ کی قیمت یہاں تک گری کہ “اسٹرابری “پچاس روپے کلو تک بکنے لگی تھی لیکن لینے والا کوئی نظر نہ آتا تھا ۔فروٹ مافیا کے پاس دو ہی راستے رہ گئے تھے یا تو وہ سستے داموں بیچے یا پھر وہ فروٹ ضائع ہو جاے ٔ ۔مجبورا” پہلا راستہ اختیار کیا گیا اور فروٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے سستے داموں فروخت کرنا مناسب سمجھا گیا ۔آج ایک مرتبہ پھر چکن مافیا بے لگام ہو چکا ہے اور مرغی کا ریٹ آٹھ سو روپے کلو گرام سے تجاوز کر چکا ہے ۔جسے خریدنا عام اور غریب آدمی کی اوقات سے باہر ہے ۔غریب کے پاس احتجاج کرنے کی صلاحیت تو پہلے ہی ختم ہو چکی ہے البتہ ایک راستہ کھلا ہے کہ وہ چکن کھانا ہی چھوڑ دے ۔فروٹ کی طرح چکن مافیا کا بھی یہ المیہ ہے کہ اگر چنددن اس کی خریداری رک جاۓ تو اس کے ضائع ہونے کے امکانات بڑھنے لگتے ہیں اور مجبورا” ریٹ میں کمی لانا پڑتی ہے ۔چکن بائیکاٹ اس سے قبل بھی کئی دفعہ ہو چکے ہیں اور اس کے نتائج بھی ملے ہیں ۔ پولٹری مافیا کے سامنے حکومتی بےبسی کے بعد لوگوں کو اس کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا ۔آج ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر چکن کے بائیکاٹ کا شور برپا ہے ۔اور صرف پندرہ دن کے لیے چکن نہ خریدنے کی باتیں اور اپیلیں ہو رہی ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں غریب کھاے کیا ؟ فروٹ کے بغیر تو گزارہ ہوسکتا ہے لیکن اب چکن کے بغیر گزارہ ناممکن ہے ۔بجلی مہنگی ہوئی تو لوگ سولر کی جانب بھاگے ،گیس مہنگی ہوئی تو لوگوں نے ایل پی جی اور لکڑی کا سہارا لیا ،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں تو لوگ الیکڑک گاڑیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بات کرنے لگے ۔جو اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ کسی بھی چیز کا بائیکاٹ قیمتوں میں کمی کا کوئی مستقل حل نہیں ہوتا ۔مہنگائی کے کنٹرول کے لیے حکومتی سطح پر وسیع تر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ اشیاء خوردونوش کی ہر چیز کا مافیا بن چکا ہے ۔چینی مافیا،گندم اور آٹا مافیا ،گوشت مافیا ،چکن مافیا ،فروٹ مافیا بھلا کس کس شے کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ چلایا جاسکتا ہے ؟دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس طرح کے بائیکاٹ سے قیمتیں کیسے کم ہو سکتی ہیں جب آے دن بجلی ،پٹرول ،گیس کے نرخ بڑھتے چلے جارہے ہیں جن کے بڑھنے سے چوزے اور پولٹری فیڈ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔کسی بھی چیز کا بائیکاٹ عارضی طور پر سود مند ثابت ہو سکتا ہے لیکن مہنگائی کا مستقل سدباب نہیں کرسکتا ۔ گندم اور آٹے کے نرخ کم کئے بغیر روٹی کا ریٹ کیسے کم ہو سکتا ہے ؟ دنیا میں مہنگائی کا مقابلہ صرف دو چیزوں سے ممکن ہوتا ہے کہ یا تو لوگوں کی آمدنی میں مہنگائی اور اخراجات کے مطابق اضافہ ہو یا پھر حکومتی ریلیف مختلف صورتوں میں ان تک پہنچے ۔بجلی ،گیس ،پیٹرول کے بلوں کے ہاتھوں پریشان عوام آخر کس کس چیز کا بائیکاٹ کر سکتی ہے ؟کسی بھی گوشت کی دوکان پر جائیں تو نرخ نامے پر بڑا گوشت آٹھ سو روپے کلو اور چھوٹا گوشت بارہ سو روپے کلو لکھا اور آویزاں نظر آتا ہے ۔ میں تو کبھی نرخ نامے کے مطابق نہیں خریدسکا کوئی مجھے اس قیمت پر خرید کر دکھا دے ؟دراصل ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بڑھتا ہوا ناسور معاشرے کے لیے زہر قاتل بن چکا ہے ۔جسے عوام کا چند دنوں کا بائیکاٹ قطعی ختم نہیں کر سکتا ۔اس کے لیے ایک منظم اور موثر حکومتی حکمت عملی درکا ر ہے ۔نرخ نامہ صرف آویزاں ہی نہیں کرنا اس پر عمل بھی کرانا ہے اور یہ عمل عوام نہیں حکومت کراتی ہے ۔اس لیے میرے خیال میں عوام کا بائیکاٹ اس بارے میں شاید کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پاے گا ۔