تحریر: شفقت حسین
ابھی تو ایرانی کمانڈر شہید جنرل قاسم سلیمانی کا صدمہ بالکل تازہ تھا کہ ایران کو یکم اپریل کے روز دمشق میں اس کے قونصل خانے پر حملہ کر کے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے راہنما سمیت 12 افراد کو شہید کر کے اسے زندگی بھر مندمل نہ ہونے والا ایک اور زخم لگ گیا جس نے ایران کو اسرائیلی حملے کا جواب دینے پر مجبور کر دیا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ امریکی صدر مسٹر جو بائیڈن تک کو ایران کے خلاف کسی جوابی کارروائی کا حصہ نہ بننے کے اپنے فیصلے سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو آگاہ کرنا پڑ گیا۔ اور یہی وہ زناٹے دار تھپڑ اور طمانچہ ہے جو ایران نے دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے منہ پر جڑ دیا ہے۔ یہ اشارہ ہے عالمِ اسلام کی زبوں حالی کے خاتمے کا۔یہ اعلان ہے کہ امتِ مسلمہ بالکل نقطۂ زوال کو چھُو کر اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے دور میں داخل ہونے والی ہے اور اس کی بے بسی اور کسمپرسی ختم ہونے کے قریب ہے۔ اور یہ کارہائے نمایاں (معذرت کے ساتھ) ’’56 بہنوں ‘‘ کے اکلوتے بھائی ایران نے سرانجام دے دیا ہے۔ اسرائیل ایسا پنگا گزشتہ سال سات اکتوبر کے روز فلسطین کے ساتھ نہ لیتا اور اب یکم اپریل کے روز دمشق ایران کے خلاف جارحیت کااختیار نہ کرتاتو اس کا بھرم قائم رہتا لیکن اس نے اپنے ہاتھوں اپنے دیوہیکل بُت کو پاش پاش کر کے یہ بھرم ختم کر دیا ہے۔اب ایران کے وابستگانِ پاسدارانِ انقلاب کے مقدس چہروں کے بوسے لئے جائیں یا ان کے ہاتھوں کو چُوما جائے‘ ان کے چرنوں کو چھُوا جائے یا ان کے گھٹنوں کو مس کیا جائے جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے تمام تر اور نام نہاد جبر‘ قہر اور غرور کو چشمِ زدن میں تین سو سے زائد ڈرون اٹیک کرکے خاک میں ملا دیا ہے۔ اور زمانے بھر پرواضح کر دیا ہے کہ محض وسائل اور طاقت ہی سب کچھ نہیں۔ ہنود و یہود کی ایکتا اور گٹھ جوڑ ہی سب کچھ نہیں بلکہ غیرتِ ملّی اور جذبۂ ایمانی ہی وہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے مقصدِ غلبۂ دین کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔ اور اسی جذبے کی بدولت ’’ہر ملک ملکِ ماست کہ مُلکِ خدائے ماست ‘‘اور ’’تہران ہوگر عالمِ مشرق کا جنیوا ‘‘کے اقبالی تصور پر مہرِ تصدیق ثبت کی جاسکتی ہے۔ اگر مگر ‘چونکہ چنانچہ‘ پابندیاںاور دھمکیاں پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتیں۔ کیا کوئی شخص اپنے حاشیۂ تصور میں بھی یہ بات لا سکتا ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کی ناجائز اولاد اور بغل بچہ ایک ایسے ملک کے ہاتھوں پٹ جائے گا جو گزشتہ تین چار عشروں سے اسی سپر پاور کی نافذ کردہ پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ جس نے ایک عرصے تک اسے ایک ایسی جنگ میں الجھائے رکھا جس نے اس ملک کی ایک پوری نسل کو نگل لیا۔ جس نے اس کی معیشت کو نشیب کی حالت سے کبھی نکلنے ہی نہیں دیا بلکہ اپنے پٹھو ممالک کو بھی ایران سے انقطاعِ تعلق اور اس سے کسی قسم کا رشتہ استوار نہ کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد کروایا وجہ اس کی ماسوائے اور کوئی نہ تھی کہ دنیا کے نقشے پر قائم یہ تاریخی ریاست کسی درست کو نادرست اور نادرست کو آنکھیں اور کان بند کر کے غلط نہیں کہتی۔ وہ کسی طاقتور ملک کی نہ تو خاموش اطاعت کرتی ہے اور نہ ہی اس کی حاشیہ بردار اور حواری بن سکتی ہے۔ کیونکہ نہ تو ایران کو ڈالروں کی جھنکار کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اپنے اوپر امریکی اور اسرائیلی اسلحے کی برسات کا آرزو مند ہے۔ اسے تو اگر مساوی بنیادوں پر دوستی کے قیام کی پیشکش کی جائے تو شاید ایران اس پر ہمدردانہ غور کرے لیکن اگر کوئی طاقتور ملک یہ سمجھے کہ نہ صرف اس کی خاموش اطاعت کی جائے بلکہ اسے اپنا آقا بھی تسلیم کیا جائے تو کسی دوسرے ملک کے لئے تو یہ مشورہ یہ حکم شاید قابلِ قبول ہو مگر ایران کو کسی طور امریکہ اور اس کے بغل بچے کو اپنا آقا تسلیم کرنے پر آمادہ اور قائل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایران سماجی‘ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی انصاف کے دائرے میں عدلِ اجتماعی کا قائل ہے جبکہ امریکی تاریخ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے ظلم پر مبنی چلی آرہی ہے۔ امریکہ کا تصورِ موت و حیات بڑا مختلف ہے۔ کیونکہ امریکہ اپنے کسی دشمن یا مخالف کو مار تو سکتا ہے لیکن اپنے کسی شہری کا کسی دوسرے کے ہاتھوں مرنا کسی طور گوارا نہیں کرتا۔ اور اسرائیل کی صورتحال بھی امریکہ سے کچھ مختلف نہیں وہاں بھی اگر کوئی شہری کسی دوسرے کے ہاتھوں مارا جائے تو وہاں ایک زلزلہ اور ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے لیکن ایران نے امریکہ کے اور اسرائیل کے تصورِ موت و حیات کو یکسر غلط ثابت کر دیا۔وہ زندگی کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھتا ہے اور موت کو شہد سے بھی میٹھی چیز گردانتا ہے۔ اسرائیل نے پچھلے 50/60 سالوں میں ناانصافی کی نت نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ امریکہ کی شہ پر بیگناہ اور معصوم ہزاروں بلکہ لاکھوں فلسطینی شہریوں کے خون سے اپنے ہاتھ آلودہ کئے ہیں۔ دنیا کی بدقسمتی رہی ہے کہ امن و امان کو تاراج کرنے میں ‘ تباہ و برباد کرنے میں امریکہ کا کردار بڑا گھناؤنا رہا ہے۔ کیا یہ ایک معلوم اور معروف حقیقت نہیں کہ جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر آگ اور بارود کی بارش نے ان شہروں کا کیا حشر کیا۔ ایٹم بموں کے اثرات اس قدر شدید اور گہرے تھے کہ جنگ کے بعد بھی کافی عرصے تک وہاں مائیں معذور اور اپاہج بچوں کو جنم دیتی رہیں۔ جاپان کی سرزمین کو بنجر بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ روشن خیال ہونے کے دعویدار اور امریکہ کی اعلیٰ اخلاقی روایات کے پاسدار نے کوریا پر جنگ مسلط کر کے اس کا نقشہ ہی بدل دیا یعنی اس کے دو ٹکڑے کر دئیے اب اس کا اگلا ہدف ویتنام تھا۔ یہاں بھی کشت و خون کے نتیجے میں ہزاروں ویتنامی لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کی بربریت کا نشانہ عراق اس وجہ سے بن گیا کہ یہاں وسائلِ رزق دیکھ کر منہ میں پانی آتا تھااور بہانہ یہ بنایا گیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ لاکھوں عراقی شہریوں کو مارنے کے بعد افغانستان بھی اس شر کی قوت کے جبر سے محفوظ نہ رہا۔ بظاہر مقصد دنیا میں کمیونزم کی یلغار سے روکنا تھا۔ لیکن اندرونِ خانہ اصل مقصد امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم تھے اور اسرائیل کو ایک کلیدی کردار دینا تھا۔ اس سارے قضئیے میں اس کا بغل بچہ اسرائیل اس کے پہلو بہ پہلو رہا۔ اور فلسطین میں بھی امریکی شہہ پر بربریت اور مظالم جاری رہے۔ ماضی میں یہ مظالم فلسطینی عوام کو مار کر کئے جارہے تھے‘ ان کی زرعی زمینوں پر امریکی صدر بش کے ایما پر قبضے کر کے اور غذائی قلت پیدا کر کے مظلوم فلسطینیوں کو بھوک سے مارنے کی تدبیر کی گئی اور آج فلسطینی عوام کی نسل کشی کر کے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں بلکہ اس پر عمل بھی شروع کر دیا گیا تھا لیکن جس طرح کہ اس سائنسی اصول اور کُلیے سے پوری دنیا آگاہ ہے کہ ہر عمل کا ایک ردِ عمل ضرور ہوتا ہے اور یہ ردِعمل طاقت کے اعتبار سے پہلے ظاہر ہونے والے عمل سے بہت زیادہ طاقتور ہوتا ہے ۔ اور یہ ردِعمل ایران نے دے دیا ہے۔ اب ایک طرف ایران سے پنگا اور دوسری جانب فلسطین سے تنازع جس میں سات اکتوبر سے اب تک کم و بیش 35 ہزار سے زائد شہادتیں ہو چکی ہیں ان دونوں تنازوں نے اسرائیل کو اور امریکہ کو حواس باختہ کئے کر دیا ہے۔ ماضی میں امریکہ اور اسرائیل کی شروع کردہ دنیا میں وسائل پر قبضے کی جنگ سے نظریاتی تصادم اور دوتہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ ہوئی جو کیفیت پیدا ہوئی وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے ۔اس جنگ میں فتح عالمِ اسلام کی ہوگی جس کا سہرا عالمِ اسلام کا جنیوا سمجھے جانے والے برادرِ اسلامی ملک ایران کے سر ہوگا۔ انشاء اللہ فلسطین بھی یہود کے پنجۂ استبداد سے نکلے گا بلکہ مقبوضہ کشمیر ہنود کے تسلط سے آزاد ہوگا۔ دنیا کے نقشے پر قائم چار پانچ درجن ممالک بے شک خوابِ غفلت میں پڑے رہیں مگر ایران کل بھی جاگ رہا تھا اور آج بھی وہ پوری طرح بیدار ہے۔ کیونکہ وہ اُن ہستیوں کا ماننے والا ہے جن کی زندگیاں گزر گئیں مگر سورج نے ابھرتے وقت ان ہستیوں کو کبھی سوتے ہوئے نہیں پایاتھا۔ ایران حزب اللہ زندہ باد‘ حماس پائندہ باد‘ سید علی خامنہ ای‘ صدر ابراہیم رئیسی اور پاسدارانِ انقلاب جیو! ہزاروں سال۔ اب وقت ثابت کرے گا کہ ایران عالمِ مشرق کا جنیوا بننے کی پوری طرح اہلیت رکھتا ہے۔