اداریہ
ملک میں عدلیہ کی آزادی کو ہرحال میں مقدم رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،پاکستان میں اس وقت عدالتوں کی صورتحال بڑی پیچیدہ ہے
،لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہیں ،اور عام آدمی کو سستا انصاف دلانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔
ان حالات میں پاکستان کے عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔عدالتی کارروائیوں کے دوران تاخیری حربے انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں ۔
اس حوالے سے ججز کی تعداد کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے ،مقدمات کی طوالت کا دورانیہ کم کرنے کی مربوط حکمت عملی اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے
اس دوران ججز کے تحفظات کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے ۔
حال ہی میں ایک خط کی بازگشت نے بھی کچھ عجیب سی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ اس کے لئے بھی تحقیقات کا حکومتی فیصلہ خوش آئند ہے ۔
پورے عدالتی نظام کو شفاف بنانے کی شروع سے ہی ضرورت رہی ہے ۔
اس تناظر میں اب تک کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ اس میں اب چیف جسٹس کی زیر سربراہی ہونے والے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے
جس میں کہا گیا ہے کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور آزاد عدلیہ پر کسی حال میں بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کے معاملے پر گزشتہ روز شروع ہونے والا فل کورٹ اجلاس آج بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارت میں جاری رہا۔
یہ اجلاس تقریباً شام پانچ بجے شروع ہوا جو افطار کے بعد تک جاری رہا جس میں ججز کی جانب سے خط کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آئیں۔
بعدازاں فل کورٹ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے لکھا گیا خط 26 مارچ کو موصول ہوا
خط میں الزامات کی سنگین کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے اسی روز اپنی رہائش گاہ پر افطار کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججز سے ملاقات کی۔
چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر ہونے والی یہ ملاقات ڈھائی گھنٹے کی تک جاری رہی جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انفرادی طور پر تمام ججوں کو سنا۔
اس کے بعد 27 مارچ کو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون سے ملاقات کے بعد
پیونی جج کے ہمراہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور اسلام آباد میں موجود بار ایسوسی ایشن کے سینئر ترین ارکان سے ملاقات کی۔
اس کے بعد چیف جسٹس کی زیر سربراہی میں 27 مارچ کو شام چار بجے سپریم کورٹ کے
تمام ججوں کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا گیا
جس میں ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط میں اٹھائے گئے مسائل اور
بنیادی نکات سے ججوں کو آگاہ کو کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق فل کورٹ کے اکثر اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حالات کی سنگینی کو
دیکھتے ہوئے چیف جسٹس خط میں اٹھائے گئے مسائل کے حوالے سے وزیراعظم سے ملاقات کریں
جس کے بعد فل کورٹ اجلاس کو ملتوی کردیا گیا۔
چیف جسٹس نے 28 مارچ کو وزیراعظم سے دوپہر 2 بجے ملاقات کی جہاں ان کے ہمراہ
وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے جبکہ چیف جسٹس کے ساتھ سینئر پیونی جج
اور رجسٹرار سپریم کورٹ ملاقات کا حصہ تھے۔
اس سلسلے میں بتایا گیا کہ وزیراعظم سے ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں
چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ ججز کے عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو
ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا
اور آزاد عدلیہ پر کسی حال میں بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اور سینئر پیونی جج نے کہا کہ آزاد عدلیہ بنیادی ستون ہے
جو قانون کی عملداری اور جمہوریت کی مضبوطی کو یقینی بناتی ہے۔ملاقات کے دوران
معاملے کی تحقیقات کے لیے پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت اچھی
ساکھ کے حامل ریٹائرڈ کی زیرسربراہی
انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ کمیشن کے قیام کی منظوری لینے کیلئے وفاقی کابینہ کا اجلاس کیا جائے گا
چیف جسٹس اور سینئر پیونی جج کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی
اور فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کریں گے۔
اسکے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ فل کورٹ اجلاس طلب کیا جس میں ججوں کو
وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔
ان حالات میں حکومت کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مقدم رکھنے کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ
عدلیہ کی آزادی پر کوئی حرف نہیں آئے گا ۔ملک میں عدالتی اصلاحات بھی ہوں گی
اور عام آدمی کو انصاف دلانے کے لئے بھی اہم اقدامات ہونے کی توقع ہے ۔
30/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-9-scaled.webp