ہمارے ملک میں ہر طرف افراتفری اور لوٹ مار کا سماں ہے۔ خیر کی سانس دور دور تک میسر نہیں اور لوٹ مار اور مہنگائی عروج پر ہے۔
غریبوں کےلیے دور دور تک کوئی سہولت میسر نہیں اور سفید پوشوں کی جگہ جگہ انتہا نہیں۔
شاید ہماری عوام کےلیے اس وقت سب سے بڑی خوش خبری یہ رہ گئی ہے کہ کہیں سے دو وقت کی روٹی مل جائے اور پیٹ پوجا ہو جائے۔
پاکستان جیسے زرعی ملک میں یہ نوبت یہاں تک کیوں آئی؟دراصل ہماری اکثریت بے شعور و بے ہنر ہے۔ جس کا جیسا جی چاہتا ویسے ہی وہ ہر کام میں من مانی کیے جارہا ہے۔
تعلیمی اداروں، اسپتالوں ، پلمبروں، مکینکوں، الیکڑیشنوں، اور میسنوں سمیت تقریباً ہر کام عموماً جگاڑی افراد کے سپرد ہوتے ہیں۔ پھر وہ مریضوں، عمارتوں، واشنگ مشینوں و فریجوں اور طالب علموں وغیرہ کا جو حال کرتے ہیں، کسی سےڈھکا چھپا نہیں ہے۔
یقیناً ہمارے ملک میں ہنر سیکھانے کے ادارے خال خال ہیں۔ اس لیے بیشتر ہنر نسل در نسل جگاڑی طریقے سے منتقل ہو رہے ہوتے ہیں.
شعبہ تعمیرات کو ہی لے لیجیے ملک بھر میں جس بے ڈھنگے انداز سے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں ڈرون کمیرے سے ان کو دیکھیں تو دنیا کا ساتواں عجوبہ لگنے لگتا ہے۔
انجینئروں کو بھی چاہے کہ تھری ڈی نقشہ تیار کرتے وقت عمارت کے اردگرد کا ایک دفعہ جائزہ لے لیں. کیوں اکثر بڑے بڑی عمارتوں کے نیچے جیسے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور پانی کھڑا ہوتا ہے
وہ بحیرہ عرب کا نقشہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ان بڑی بڑی عمارتوں کو گلیوں میں تعمیر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ دس کروڑ کی کوٹھی میں اگر آپ گاڑی نہیں کھڑی کرسکتے تو باقی کیا فائدہ؟
ان بڑی بڑی چار پانچ منزلہ عمارتوں میں اکثر صحن نہیں ہوتا۔ یوں گھر والے تازہ آب اور دھوپ سے محروم ہو کر چند ہی سالوں میں کئی قسم کی بیماریاں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
میری تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ گھر میں کم ازکم غمی و خوشی اور سردی و گرمی سے بچنے کےلیے پانچ مرلے کا صحن ضرور چھوڑیں، ورنہ اپنے اور گھر والوں کی بیماریوں کےلیے ہمہ وقت تیار رہیں۔
بات جگاڑ کی چل رہی تھی تو گزشتہ دنوں ہمارے گھر میں واشنگ مشین خراب ہوگئی. ایک الیکڑیشن کو دکھائی تو وہ تین گھنٹے نقص ڈھونڈتا رہا۔
آخر کار نقص ملا تو وہ ٹھیک کرنے کے بعد بھی مشین نہ چلی، میں نے کیا بھئی آپ خواہ مخواہ میرا اور اپنا وقت برباد نہ کریں اس کا کیپسٹر پہلے سے خراب ہے آپ نیا لگا لیجیے اور پیسے لے کر ہمیں فارغ کیجیے تو مہربانی ہوگی ۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات میں مری روڑ پر اے سی ٹیکنیشن کا کورس کرنے کےلیے گیا۔
اس ادارے میں تمام بیرونی ملک جانے والے افراد کے ٹیسٹ ہوتے تھے۔ وہاں دو ہفتے رہ کر دیکھا کہ اکثر تیس تیس سال سے کام کرنے والے پلمبر، میسن اور الیکڑیشن کو آوزاروں کے مکمل نام اور ان کے درست استعمال کا ہی نہیں علم تھا۔ یقین کریں نیوٹرل، فیز، پائپ کی اقسام اور ان کا استعمال کہاں کہاں اور کیسے ہوتا ہے۔
اکثریت نابلد تھے۔ ہمارے استاد اکثر کہا کرتے تھے جگاڑیوں خدا کا واسطہ بنیادی چیزوں کے نام اور ان کے استعمال تو سیکھ لو۔ افسوس صد افسوس ہماری قوم کی تباہی میں جگاڑی ذہن سازی نے بھرپور تباہی کا کردار ادا کیا۔
کاش جتنا ہمیں آتا اتنا ہی کام کرتے تو آج ہمارا ملک اس قدر زوال کا شکار نہ ہوتا۔
نہ جانے ہم کب جگاڑی کاموں سے باز آئیں گے۔ نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان کی باتیں پرانی ہو گئی ہیں، اب تو ہر کام کے جگاڑی زندہ باد ہیں۔
تحریر: خالد غورغشتی
20/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-13-scaled.webp