اباجی اکے پیر محترم حضرت خواجہ حسن نظامیؒ مرحوم اباجی سے بےپناہ محبت کرتے تھے اور انہیں اپنا روحانی فرزند کہتے تھے ۔اسی نسبت سے خواجہ صاحب نے انہیں “ندیم نظامی ” کا کا لقب عطا فرمایا ۔ہمارے مرحوم اباجی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کی انٹرنیشنل لائبریری خواجہ صاحب کی زیر نگرانی کئی سال تک لگاتار محنت سے ترتیب دی جسے ہندوستان کی سب سے بڑی اور یادگار اسلامی لائبریری کہا جاتا ہے اور جس کا افتتاح حضرت خواجہ حسن نظامی مرحوم نے اپنے دست مبارک سے کیا اور افتتاحی تختی پر اپنے نام کے ساتھ ترتیب کنندہ “ندیم نظامی ” درج فرمایا ۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے خواجہ صاحب سے اباجی کے ساتھ اس خصوصی محبت اور شفقت کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ میرے پیار اور خصوصی توجہ کی وجہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں “ایاز خان ” کی پوری زندگی آزمائشوں اور تکلیفوں سے بھری پڑی ہے۔میرا یہ روحانی فرزند “ایاز خان “ایک بڑا آدمی ہے کیونکہ بڑی آزمائشیں بڑے لوگوں کا نصیب ہوتی ہیں ۔اللہ اپنے خصوصی بندوں کو ہی بڑی بڑی آزمائشوں سے گزارتا ہے ۔اللہ کی آزمائشیں ان پر ہی ہوتی ہیں جو ان آزمائشوں پر پورا اتر سکیں۔آخری عمر میں جب اباجی بستر علالت پر تھے تو کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی آزمائش کے لیے زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ دنیا کے سب کام مکمل کر چکا ہوں۔میں ایسی زندگی چاہتا ہوں جو کسی کے کام آسکے شاید میرے رب نے مجھ سے ابھی کوئی کام ایسا ضرور لینا ہے جس کے لیے میرا زندہ رہنا ضروری ہے ۔میں آج بھی غور کرتا ہوں تو ان کی زندگی سراپا آزمائش نظر آتی ہے ۔گھر کی تباہی ،بیوی بچوں کی شہادت ،دوسری جنگ عظیم سے لیکر مشرقی پاکستان تک کی سب جنگوں میں شرکت جنگی قید کی صعوبتیں زندگی کے ہر لمحے ایک معاشی ،معاشرتی ،جسمانی ،جنگی ،سماجی اور اخلاقی نئی آزمائش ضرور ہوتی تھی ۔ان کی زندگی کے نشیب وفراز حیرت انگیز تھے جسے وہ خندہ پیشانی سے قبول کرتے اور اپنے رب کی رضا سمجھتے تھے ۔میں نے ایک دن پوچھا اباجی ! یہ آزمائش کیا اور کیوں ہوتی ہے ؟ تو کہنے لگے یہی تو وہ زخم ہے جو نکھارتا ہے ۔زندگی کوئی خواب نہیں مگر خوابوں سے خالی بھی نہیں ۔اس کی صبحیں امید سے روشن اور شامیں اکثر مایوسی سے نم آلودہ ہوتی ہیں اور انہی دھندلی شاموں میں کہیں کوئی درد چھپا ہوتا ہے جسے دنیا “آزمائش ” کے نام سے جانتی ہے ۔آزمائش ۔۔یہ لفظ سنتے ہی دل میں ایک نامعلوم کسک ابھرتی ہے جیسے کوئی پرانا زخم پھر سے ہرا ہو گیا ہو اور کبھی یہ غربت کے چولہے سے اٹھنے والے دھوئیں میں چھپی ہوتی ہے ،کبھی ہسپتال کے کسی بےبس وارڈ میں کسی بیٹے یا بیٹی کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے۔اور کبھی کسی خاموش رات میں تنہائی کے عالم میں رب کے حضور بہنے والے آنسوں کی صورت دل پر اترتی ہے ۔آزمائش محض مصیبت نہیں ،یہ ایک نادیدہ پیام ہے ،یہ رب کا بھیجا ہوا خط ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ” کیا تو اب بھی میرا ہے ؟ “قرآن میں فرمایا ہے کہ “کیا لوگوں نے گمان کیا کہ وہ صرف یہ کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لاۓ اور ان کو آزمایا نہ جاۓ گا ” (قرآن ) آزمائشیں صرف گناہوں کی سزا نہیں ہوتیں یہ محبت کا امتحان بھی ہوتی ہیں ۔حضرت ایوب ؑ کا جسم دکھتا رہا ،مگر دل سے “شاکی “کا لفظ کبھی نہ نکلا حضرت یوسف ؑ قید میں رہے مگر روح کی آزادی سلامت رہی اور سیدالانبیاء ؐ کو طائف کی گلیوں میں پتھر مارے گئے مگر لبوں سے بددعا نہ نکلی ۔یہی تو آزمائش کا کمال ہے کہ یہ شکایت کو شکر میں اور کرب کو کرامت میں بدلنے کی طاقت رکھتی ہے ۔اباجی کہتے تھے کہ بچوں کی تکلیف اور دکھ والدین کی آزمائش ہوتی ہے ۔ بچوں کا دکھ والدین کے لیے الارم ہوتا ہے ۔بھلا کون چاہتا ہے کہ اس کی نالائقیوں اور گناہوں کی سزا اس کے بچوں کو ملے ؟میرے بچے جب بیمار ہوتے تو وہ کہتے کہ اپنے اندر جھانکو دیکھو کچھ غلط تو نہیں ہے اور اگر اندر صاف ہے تو استغفار اور صدقہ بڑھاتے چلے جاو ۔کیونکہ صدقہ رد بلا ہوتا ہے ۔اور صدقوں میں سب سے بڑا صدقہ اپنی غلطیوں کو جاننا ،ماننا اور ان کی تلافی کرنا ہوتا ہے ۔لیکن ہمارے ہاں جانور کی قربانی ،خیرات اور روپے پیسے دینے کو ہی صدقہ سمجھا جاتا ہے ۔وہ فرماتے تھے کہ کسی بھی آزمائش کا آنا اور پھر جلد چلے جانا صرف انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے ہوتا ہے ۔
ممکن ہے کہ آزمائش کو مکمل طور ٹالا نہ جاسکے مگر کچھ دروازۓ ایسے ضرور ہیں جن پر دستک دی جاۓ تو رب آزمائش کی شدت ہلکی فرما دیتا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ اباجی کی آنکھ کی بینائی چلی گئی ڈاکٹرز نے جواب دۓ دیا مگر پھر جب وہ ایران سے واپس آۓ تو اسی ڈاکٹر نے کہا کہ اب آپریشن ہو سکتا ہے اورپھر نہ صرف آپریشن سے بینائی لوٹ آئی بلکہ آخری وقت تک بینائی سلامت بھی رہی ۔وہ کہتے تھے کہ جب انسان رب کی حدود میں جیتا ہے تو آزمائشیں اس پر رحمت کا روپ دھار لیتی ہیں ۔استغفار وہ ٹھنڈی ہوا ہے جو بلاوں کی آگ بجھا دیتی ہے ۔معافی اللہ سے اور انسانوں سے مانگنا کمزوری نہیں بلکہ بلند ظرفی ہے جو انسان کو گرنے سے پہلے سنبھال لیتی ہے ۔ماں باپ اور بڑے بزرگوں کی دعا آزمائشوں کے گرد ایسا گھیرا ڈال دیتی ہے جس کی روشنی کے سامنے اندھیرے بھی شرمندہ ہو جاتے ہیں ۔جب زمین والے ساتھ چھوڑ دیں تو آسمان والے کی طرف اٹھے ہاتھ آزمائش کو پگھلا دیتے ہیں ۔کبھی کبھی صدقے کا ایک چھوٹا سا سکہ کسی بڑی آفت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے ۔
آزمائش نہ تو کوئی سزا ہے اور نہ ہمیشہ کا غم ،یہ تو ایک روحانی پرورش ہوتی ہے جس میں انسان خود سے ملتا ہے ۔آزمائش کے آئینے میں ہمیں اپنا باطن دکھائی دیتا ہے ۔اگر آج آپ کی زندگی میں بھی کسی دکھ کی چادر اوڑھے مشکل وقت آ بیٹھا ہے تو سمجھ لو کہ آپ کو قرب الہی کا موقع دیا جارہا ہے ۔آزمائش اگر چوٹ دیتی ہے تو صبر مرہم بھی لگاتا ہے اوراگر آج سکون نصیب ہے تو شکر ادا کریں اس سے پہلے کہ زندگی کا موسم کروٹ بدلے کیونکہ آزمائش آتی ضرور ہے چاہے پکار کر آے یا پھر چپ چاپ ہی آجاۓ ۔مگر جو رب سے جڑتا ہے وہ ہمیشہ اس میں کامیاب ہوتا ہے ۔پس اگر آج آپ آزمائش میں ہیں تو سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اور اگر آپ آزمائش سے محفوظ ہیں تو شکر کریں اور خود کو سنوارنے میں دیر نہ کریں کہ یہ مہلت بھی آزمائش سے پہلے کی آخری گھڑی ہو سکتی ہے ۔آزمائش میں ڈوبنا ہماری کمزوری اور اس سے سیکھ کر نکلنا ہماری قوت ہے ۔آزمائش وہ قافلہ ہے جس میں سے گزر کر انسان “عبد “بنتا ہے ۔صبر ،شکر اور یقین یہی وہ توشہ ہیں جو اس راہ کو آسان کرتے ہیں اور آپ کے گرد حفاظتی گھیرا ڈال کر آپ کو آزمائشوں سے بچاتے ہیں ۔جب رب آزمائش میں ڈالے تو سمجھ لو وہ تمہیں نوازنے والا ہے ۔وہ تمہیں اپنے خاص بندوں میں شامل کرنا چاہتا ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ تم مضبوط بنو ،صبر کرو اور اپنے رب پر بھروسہ رکھو ۔یاد رکھو کہ اس کی ہر آزمائش کے پیچھے اسکی محبت چھپی ہوتی ہے ۔وہ تمہیں تکلیف میں دیکھ کر خوش نہیں ہوتا بلکہ تمہاری برداشت کو ،تمہارے ایمان کو اور تمہارے دل کو آزمانا چاہتا ہے تاکہ تم ان انعام کے قابل ہو سکو جو وہ تمہیں عطا کرنا چاہتا ہے ۔کوئی آزمائش تمہارے رب سے بڑی نہیں ہے ۔وہ حضرت ابراہیم ؑ کو آگ سے ،حضرت ایوب ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے ،حضرت یوسفؑ کو کنوئیں سے نکال کر ،اور حضرت اسماعیل ؑ کی ایڑیوں سے زم زم نکا ل کر معجزہ دکھا سکتا ہے ہماری آزمائشیں تو بہت معمولی ہوتی ہیں ۔آزمائشیں صرف افراد پر ہی نہیں آتیں بلکہ اقوام کو بھی بڑی بڑ ی اسخت آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔جو ثابت قدمی کی متقاضی ہوتی ہیں اور اللہ کی رحمت اور مدد سے ہی ملک اور قوم کو ان سے ننکالا جا سکتا ہے ۔جیسے کے قائد اعظم کی طویل جدوجہد کی مثال سامنے ہے جو ہر آزما ئش میں ثابت قدم رہے اور چودہ اگست کو پاکستان کا قیام اس جدوجہد کا بہت بڑا انعام سمجھا جاتا ہے ۔جیسے جاپان کی ایٹمی تباہی اور پھر بے مثال ترقی سب کے سامنے ہے ۔