معاشرے کی بے حسی اور جہالت کی عکاسی

اورنگزیب اعوان

انسان شہرت کی بلندیوں کو چھونا چاہتا ہے. یہ اس کا بنیادی حق ہے. اس میں جنس کی کوئی قید نہیں. مگر ہماری معاشرے کی بے حسی ہے. کہ ہم صرف اور صرف مردوں کو یہ حق دیتے ہیں. خواتین کو اس کے بارے میں سوچنے پر بھی سزا سنا دی جاتی ہے. اگر کوئی مرد ماڈلنگ، ایکٹنگ کرے یا گرل فرینڈ رکھے. تو اسے اس کی کامیابی اور بلوغت تصور کیا جاتا ہے. یہی جسارت کوئی عورت کر لیں. تو اسے بدچلن ،بدکردار جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے. خاندان والے ایسی عورت کو اپنے لیے باعث بدنامی تصور کرتے ہیں. یہ فرسودہ اور گھٹیا سوچ ہماری معاشرتی گراوٹ کو عیاں کرتی ہے. موجودہ دور میں ہم لوگ سوشل میڈیا پر تعلقات استوار کرتے ہیں. لاکھوں لوگ سوشل میڈیا پر ہمارے فین بن جاتے ہیں. حقیقت میں یہ تعلقات عارضی اور مصنوعی ہوتے ہیں. حمیرا اصغر اور عائشہ خان کی اذیت ناک اموات نے ہمارے معاشرے کے چہرے پر تعصب ،تنگ نظری، جہالت کے اوڑھے ہوئے نقاب کو بے نقاب کیا ہے. عائشہ خان اور حمیرا اصغر دونوں فنکارہ تھیں. جہنوں نے متعدد ڈرامہ سیریل میں کام کیا. ان کی اپنی ایک منفرد پہچان تھی. کراچی شہر کو آبادی کی وجہ سے انسانوں کا سمندر کہا جاتا ہے.اس شہر میں عائشہ خان کی لاش ان کے ذاتی فلیٹ سے ایک ہفتہ بعد ملی. اسی طرح سے حمیرا اصغر کی لاش سات ماہ بعد اس کے رہائشی فلیٹ سے ملی.یہ دلخراش واقعات انسانی بے حسی اور نفسا نفسی کو ظاہر کرتے ہیں. شہر کے پوش ترین ایریا میں رہنے کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے لاتعلق رہتے ہیں. انہیں اپنے پڑوس میں رہنے والوں کی خبر تک نہیں ہوتی. اس سے بہتر تو گاؤں اور محلوں کی زندگی ہے. لوگ ایک دوسرے کے چہرہ شناس اور دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں. کچھ دن تک کوئی نظر نہ آئے. تو اس کی خیریت دریافت کرنے اس کے گھر چلے جاتے ہیں. ترقی اور دولت نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے. اب لوگ سکون کی تلاش میں آبادی سے دور تنہا رہنا پسند کرتے ہیں. سکون کا تو پتہ نہیں. مگر تنہائی ان کا مقدر ضرور بن جاتی ہے. یہ وہ خواتین ہیں. جنہوں نے اپنی پہچان بنانے کی جسارت کی. ان کے گھر والوں نے ان سے قطع تعلق اختیار کر لیا. کیونکہ وہ اپنے عزیزوں و اقارب اور معاشرے والوں سے ڈرتے تھے. کہ لوگ کیا کہے گے. کہ آپ کی بیٹی ڈراموں میں کام کرتی ہے. وہ یقیناً بدچلن ،بدکردار ہوگی. اس کے مردوں سے مراسم ہو گے. یہ الزامات ہمیشہ عورت ذات پر ہی کیوں لگائے جاتے ہیں. کبھی ان الزامات پر مرد کو بھی مرد الزام ٹھہرایا گیا ہے. عورت کی پیدائش ایک مرد کی وجہ سے ہوتی ہے. اس کی شادی ایک مرد سے ہوتی ہے. اس کی بدنامی ایک مرد کی وجہ سے ہوتی ہے. بیچاری عورت کا اپنا وجود اور پہچان کہاں ہے. وہ ساری زندگی مردوں کے معاشرے میں سہارے ڈھونڈتے گزار دیتی ہے. آخر کار اسے اذیت ناک موت سے دوچار ہونا پڑتا ہے. اس کی موت پر بھی ہم لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہوتے ہیں. کہ یہ ایسی ہوئی ہوگی. ویسے ہوئی ہو گی. عورت بھی انسان ہے. یہ بھی زندہ رہنا چاہتی ہے. کچھ بننا چاہتی ہے. اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہتی ہے. مگر مردوں کے خود ساختہ غیرت مند معاشرے میں اس کو یہ حق حاصل نہیں. آج بھی اسے غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے. عورت کو ناحق قتل کر کے پتہ نہیں. مردوں کی غیرت کیسے بچ جاتی ہے. بلوچستان میں شیٹل نامی لڑکی کو پسند کی شادی کرنے پر قبیلے والوں نے اسے گولیاں مار کر قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا. اور اس کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی. جس میں درجن بھر مرد ایک نہتی عورت کو گولیاں مار کر قتل کرنے پر اپنی مردانگی اور غیرت کا ثبوت دے رہے ہیں. دنیا چاند پر قدم رکھ چکی ہے. مگر ہماری فرسودہ سوچ آج بھی تبدیل نہیں ہوئی. عورت بھی انسان ہے. اسے بھی وہ سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہے. جو ایک مرد کو حاصل ہے. جب ہم لوگ اپنی ماں ،بہن، بیوی، بیٹی کو ہسپتال لیکر جاتے ہیں. تو ہماری کوشش ہوتی ہے. کہ انہیں کوئی لیڈی ڈاکٹر چیک کرے. وہ لیڈی ڈاکٹر بھی کسی کی ماں بہن ،بیوی، بیٹی ہوتی ہے. اس کی عزت بھی اپنی خواتین کی طرح کرے. عورت بدچلن بدکردار نہیں ہوتی. مرد اس کا ذمہ دار ہوتا ہے. کیونکہ مرد ہی اس کے جذبات سے کھیلتا ہے. وہ ہی اسے رسوا کرتا ہے. وہی اسے عزت سے نوازتا ہے. عورت بیچاری کی تو کوئی مرضی نہیں. وہ تو اس دنیا میں محض مردوں کی نام نہاد عزت، غیرت کو بچانے کے لیے پیدا ہوئی ہے. مرد جو مرضی کرے. اسے پوچھنے والا کوئی نہیں. مرد جب کسی عورت سے ناجائز تعلقات استوار کرتا ہے. تو اس نے کبھی سوچا ہے. کہ یہ بھی کسی کی بہن ،بیٹی ہے. جس طرح سے وہ اپنی خواتین کی عزت کی حفاظت کرتا ہے.کیا وہ دوسروں کی عزت کا محافظ نہیں بن سکتا. بات صرف اور صرف فرسودہ سوچ کو بدلنے کی ہے. جس دن ہم لوگوں نے اپنی فرسودہ سوچ، گھٹیا رسومات کو ترک کر دیا. ہمارا معاشرہ بے حسی اور تنزلی کی دلدل سے باہر نکل آئے گا. آئیں اپنی سوچ بدلیں اور خواتین کو حق زندگی دیں.

Comments (0)
Add Comment