ہیلمٹ بہت ضروری ہے

تحریر: رفیع صحرائی rafisehraee5586@gmail.com

صدا بصحرا
رفیع صحراٸی

ہیلمٹ بہت ضروری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں ایک بری پریکٹس موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ استعمال نہ کرنا ہے۔ کئی بار لوگوں کو ہیلمٹ کی افادیت سے آگاہی کی مہم چلائی گئی۔ گزشتہ سال بھی اس پر سختی سے عمل کروانے کی کوشش کی گئی کہ بغیر ہیلمٹ کوئی شخص موٹر سائیکل لے کر نہ نکلے مگر اس چندروزہ مہم کے خاطرخواہ نتائج نہ نکل سکے۔ عوام صرف سختی کی زبان سمجھتے ہیں۔ اگر ان سے یہ امید رکھی جائے کہ رضاکارانہ طور پر قانون کی پابندی کریں گے تو یہ آپ کو ہمیشہ مایوس کریں گے۔ جس طرح عام سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہوا ڈرائیور جب موٹروے پر گاڑی چڑھاتا ہے تو اچانک قانون پسند بندہ جاتا ہے کہ اسے بھاری جرمانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی طرح موٹرسائیکل سوار تب ہیلمٹ کا استعمال کرتا ہے جب اسے پکڑے جانے اور چالان ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ اگر ٹریفک پولیس چندروزہ مہم کو مستقل اپنا لے تو خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔ ویسے یہاں بھی ہم بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل سواروں کے عجیب رویّے دیکھتے ہیں۔ پولیس کے رکنے کے اشارے پر ان کی پہلی کوشش تو بھاگ جانے کی ہوتی ہے۔ کچھ نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو فوراً ہی جیب سے موبائل فون نکال کر کسی پولیس والے کا نمبر ملا کر بات کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ منچلے تو حلقہ کے ایم پی اے یا ایم این اے سے بات کروا دیتے ہیں۔ کئی نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو روکے جانے پر ہاتھ جوڑتے اور اپنی غربت کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ ملک کے شہری علاقوں میں رونما ہونے والے حادثات میں شدید زخمی ہونے اور زندگی کی بازی تک ہار جانے کی بنیادی وجہ موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ نہ پہننا ہے۔ روزانہ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں تمام شہروں میں موٹر سائیکل سوار بغیر ہیلمٹ سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ موٹر سائیکل کی تیز رفتاری اور ڈرائیونگ قوانین کی خلاف ورزی خطرناک حادثات کا سبب بن جاتی ہے۔
یاد رکھیے! دنیا میں جتنے بندے موٹر ساٸئیکل نے نگلے ہیں کسی دوسری چیز نے اتنے بندے نہیں مارے۔ پاکستان میں روزانہ اوسطاً دس بندے اپنی زندگی موٹر سائیکل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں جبکہ موٹر سائیکل کو بچاتے ہوئے بھی بہت سے حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔ موٹر سائیکل حادثات میں روزانہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن میں سے کئی زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔
تیز رفتار موٹر سائیکل جب کسی چیز سے ٹکراتی ہے تو اس کے ٹکرانے کی رفتار وہی ہوتی ہے جس رفتار سے موٹر سائیکل چل رہی ہوتی ہے۔ مثلاً اگر موٹر ساٸیکل 60 کلومیٹر کی رفتار سے جا رہی ہے تو اس کے اوپر بیٹھا بندہ بظاہر تو ساکن ہے لیکن اردگرد کے ماحول کے حساب سے اس بندے کی سپیڈ 60 کلومیٹر ہوتی ہے۔ اچانک رکاوٹ، مزاحمت یا بریک کی وجہ سے وہ بندہ 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے موٹرسائیکل سے آگے نکل جاتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب کوٸی بھی چیز اڑتی ہےتو اس کا بھاری حصہ پیچھے رہ جاتا ہے اور ہلکا حصہ آگے کی طرف ہو جاتا ہے۔ انسانی جسم کا بھاری حصہ چھاتی سے نیچے ہے۔ ادھر ہڈی بھی وزنی ہوتی ہے اور گوشت و انتڑیاں بھاری ہوتی ہیں لہٰذا حادثے کی صورت میں بندے کا سر خود بخود آگے کو ہو جاتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر سب سے پہلے سر ہی سڑک یا کسی سامنے والی چیز سے ٹکراتا ہے۔ سر پر چوٹ لگنے کا نتیجہ فوری موت یا بےہوشی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان میں سر کی چوٹ (Head injury) کے ڈاکٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
جو لوگ غریب ہونے کی وجہ سے ہیلمٹ نہیں خرید سکتے وہ ڈیڑھ دو لاکھ کا موٹر سائیکل کیسے خریدتے ہیں؟ اس کی مرمت کہاں سے کرواتے ہیں اور اس میں پٹرول ڈلوانے کے پیسے کس طرح ادا کرتے ہیں؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم لوگ دو ہزار روپے جرمانہ نہیں دے سکتے، اسے ہم خود پر ظلم سمجھتے ہیں مگر کفن دفن، تنبو قناتوں اور مہمانوں کے کھانے کا انتظام آسانی سے کر لیتے ہیں۔ دو ہزار جرمانہ نہیں دے سکتے لیکن سر کی چوٹ کے اصل تعین کے لیے MRI کی فیس دس ہزار روپے آسانی سے دے لیتے ہیں۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ دو ہزار روپے کا ہیلمٹ ہی خرید لیا جائے۔ جان بہت قیمتی چیز ہے۔ ہیلمٹ موٹر سائیکل چلاتے وقت واحد سیفٹی ہے۔ سر بچ جائے، بندہ بچ جاتا ہے۔ ہڈیاں جڑ جاتی ہیں۔ زخم بھر جاتے ہیں۔ سر ٹوٹ جائے تو دوسرا سر نہیں ملتا۔ بہتر ہے کہ اپنا سر توڑنے کی بجائے دو ہزار کا ہیلمٹ توڑ لیں۔
ایک اخبار کی جانب سے یہ تجویز دی گئی ہے کہ مختلف کاروباری کمپنیوں کے تعاون سے ٹریفک وارڈنز کے ذریعے موٹر سائیکل سواروں میں مفت ہیلمٹ تقسیم کیے جائیں اور ایک ایپ کے ذریعے اس کا مکمل کمپوٹرائزڈ ریکارڈ رکھا جائے۔ ایک مخصوص مدت تک ہیلمٹ کی افادیت سے آگاہی مہم چلائی جائے۔ ہیلمٹ کی وصولی اور آگاہی کے باوجود اگر کوئی موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے کی پابندی کی خلاف ورزی کرے تو اسے بھاری جرمانہ کیا جائے۔ یہ ایک اچھی تجویز ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

Comments (0)
Add Comment