سورۃ الفجر اور واقعہ کربلا کے درمیان جو ربط قائم کیا جاتا ہے وہ اصولوں, اقدار اور روحانیت کا ربط ہے ـ یہ سورت ظلم کے خلاف مزاحمت، اللہ کی رضا پر سر تسلیم خم کرنے اور حق کی خاطر قربانی دینے کے ان بنیادی اصولوں کو اجاگر کرتی ہے ،جو واقعہ کربلا میں اپنی انتہا کو پہنچے حضرت امام حسین علیہ السلام کا کردار اس سورت کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے ,جہاں ایک مطمئن نفس اللہ کی راہ میں ہر قربانی دینے کو تیار ہےـ یہ تعلق مسلمانوں کو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے ,صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے اور اللہ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھنے کی ترغیب دیتا ہے ـ
واقعہ کربلا ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر دور میں بہت کچھ لکھا گیا اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا کہیں اس موضوع میں غیر ضروری باتوں کو بھی شامل کر دیا گیا جو کہ قابل مذمت ہیں ـ جیسا کہ حدیث پاک کا مفہوم ہے “کہ ادمی کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ غیر ضروری باتوں کو چھوڑ دے ـ
عوام الناس میں بات ایسی کی جائے جو مختصر اور مدلل ہو جیسا کہ حدیث پاک میں اتا ہے
“بات مختصر اور جامع کی جائے ”
اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے
کچھ عرصہ قبل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول نظر سے گزرا کہ سورۃ الفجر کو سورۃ حسین بھی کہہ سکتے ہیں اس کو پڑھنے کے بعد دل میں ایک تجسس پیدا ہوا کہ اس قول کے تناظر میں سورۃ الفجر کو پڑھا جائے اور اس موضوع کو قران کی نظر سے دیکھا جائے ـ
تو قران کھولا جیسے جیسے ایات نظر سے گزرتی گئیں ایسا محسوس ہوا کہ پورا واقعہ کربلا ہی سورۃ الفجر میں موجود ہے اور وہ بھی ترتیب کے ساتھ اور یہ اتنی شاندار سورت ہے کہ ایک ایک ایت جیسے موتیوں کی طرح پرو دی گئی ہو اور پورا واقعہ انکھوں کے سامنے ا جائے ـ
اس تحریر میں مفہوم کو بیان کیا جا رہا ہے اور لفظی ترجمہ کو قاری حضرات کے لیے چھوڑا جا رہا ہے تاکہ پڑھنے والے خود قران کی ایک ایک ایت کو پڑھتے جائیں اور اس کی خوبصورتی اور معجزے کو محسوس کرتے جائیں ـ
سورت کے اغاز میں اللہ تعالی نے فجر کی قسم کھائی ہے ـ یعنی وہ فجر جس میں کربلا کے میدان میں جنگ کا اغاز ہوا ـ
اس کے بعد اللہ تعالی نے 10 راتوں کی قسم کھائی ہے اس سے محرم کی 10 راتیں جو اہل بیت اور ان کے ساتھیوں کے لیے ازمائش تھی اس کا بیان ہےـ تیسری ایت میں میدان کربلا میں موجود امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی قسم کھائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ جفت بھی تھے اور طاق بھی یعنی اہل بیت بھی تھے اور غلام بھی ـ
اور چوتھی ایت میں اس رات کا ذکر ہے اور اس کی قسم کھائی گئی ہے جس رات حضرت امام حسین نے دیا بجھا کر سب کو اجازت دی کہ جو واپس جانا چاہے جا سکتا ہے مگر کوئی ایک بھی واپس نہ گیاـ
اگلی ایت میں پھر فرمایا “دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی قسم ہے “یہ وہی قسم ہے جس قربانی کا ذکر سورۃ الکوثر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا اور اس کو پورا حضرت امام حسین نے کرنا تھاـ
اگلی ایت میں اللہ تعالی نے ان قوموں اور بادشاہوں کا ذکر فرمایا ہے جو ظالم اور جابر تھے مثلا قوم عاد ٫اہل ارم٫ قوم ثمود اور فرعون کہ یہ سب بھی فساد پھیلانے والے تھے جیسے یزید فساد پھیلانے والا تھاـ
اللہ کا قانون یہی ہے کہ جب ظلم انتہا کو پہنچ جائے تو اس نے ختم ہونا ہوتا ہےـ اور اللہ ایسے لوگوں کی تاک میں ہےـ اسی کا ذکر ایت نمبر 13 اور 14 میں ہے ـ
اگلی چند ایات میں کربلا میں موجود ہر اس (برائے نام) مسلمان کی سوچ کی عکاسی کی گئی ہے جنہوں نے حضرت امام حسین کی مخالفت میں تلوار اٹھائی ـ اور فرمایا گیا ہے کہ وہ ایسا انسان ہے کہ جب اس کا رب اس کو عزت اور نعمتیں دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ پر کرم فرمایا اور جب اس سے ازمایا جاتا ہے تو اس پر رزق تنگ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا ـ
اگلی ایات میں اہل کوفہ کا ا اور شام کے بازاروں میں جب انہوں نے اہل بیت کو دیکھ کر جو رویہ رکھا اس کا ذکر ہے کہ جب اہل بیت یتیمی کی حالت میں پہنچتے ہیں تو ان کی قدر نہیں کی جاتی اور جب بے کسی کی حالت میں یہ قافلہ گزرتا ہے تو ان کو کھانا کھلا نہیں کھلاتے حالانکہ وہ کئی دن سے بھوکے اور پیاسے تھےـ اور جن لوگوں نے ان کی دادرسی کی ان کو اہل بیت نے جن کے پاس جنت کی سرداری ہے،دعا دی ـ اگلی ایت میں یزید کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو اصل میں اس خلافت کے وارث تھے ان سے خلافت چھین کر زبردستی قبضہ کر کے بیٹھ گیا اور اس کی بد نیتی کے بارے میں بتایا گیا کہ تم اہل بیت سے زیادہ مال و دولت کی محبت میں گرفتار ہوـ
ایت نمبر 25 میں بتایا گیا کہ یقینا اب اس کی حکومت کا شیرازہ بکھر جائے گا اور اس کی حکومت کا ڈھانچہ پاش پاش ہو جائے گاـ
اس کے بعد اگلی ایات میں یزید لعین کا اخر میں جو حشر ہوگا اس کا ذکر ہے کہ اللہ پاک خود جلوہ فرما ہونگے اور فرشتے بھی قطاروں میں حاضر ہوں گے اس دن اس لعین کو سمجھ ا جائے گی کہ اس نے کیا کیا ظلم کیاـ مگر اس دن توبہ اور نصیحت اس کے کام نہ ائے گیـ اور وہ کہے گا کہ اے کاش میں نے اگلی زندگی کا سوچا ہوتا اور دنیا کی لالچ میں اہل بیت کے ساتھ یہ ظلم نہ کیا