پاکستانی ادب اور علم کے افق پر چند نام ایسے ہیں جو نہ صرف دل و دماغ کو روشنی بخشتے ہیں بلکہ قوم کے جذبۂ حب الوطنی کو بھی نئی حرارت دیتے ہیں۔ ندیم اختر غزالی انہی ناموں میں سے ایک ہیںجن کا قلم علم، فکر اور تخیل کا روشن چراغ ہے۔ ان کی تحریریں صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایکجذبے کی تصویر ہیں جو قارئین کے دل و دماغ میں دیرپا اثر چھوڑتی ہیں۔ تاریخِ اسلامی پر ان کی تحقیق اور تجزیہ قارئین کو ماضی کی ژرفیوں میں لے جاتا ہے جہاں نہ صرف عبرت آموز واقعات ملتے ہیں بلکہ قوم کی بقاء اور ترقی کے لیے سبق آموز رہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ندیماختر غزالی کا اندازِ بیان نہایت پرجوش، معلوماتی اور جذباتی ہے جو پڑھنے والے کے دل میں حبِ اسلام اور حب وطن کے چراغ فکر روشن کر دیتا ہے۔
ندیم غزالی کی تحریریں صرف بڑوں کے لیےمحدود نہیں۔ بچوں کے ادب پر بھی ان کی نگاہ رہی ہے خاص طور پر سائنس فکشن کے میدان میں انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں تخلیق کی ہیں جو تجسس، دریافت اور فکر و تخیل کے دریچے بھی کھولتی ہیں۔ سکولوں کے بچے بالخصوص ان کہانیوں کے ذریعے نہ صرف دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں بلکہ سوال کرنے اور سوچنے کی مہارت بھی سیکھتے ہیں ، یوں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ندیم غزالی نے بچوں کے ادب میںسائنس فکشن کے ذریعے علم اور تخیل کو یکجا کرنے کا منفرد تجربہ پیش کیا ہے جو ہمارے نوجوان قارئین کے ذہنوں میں مستقبل کی سوچ پیدا کرتا ہے اور انہیں تخلیقی اور تحقیقیسرگرمیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ یہ کہانیاں پیغام دیتی ہیں کہ ادب صرف تفریح نہیںبلکہ سوچنے، سمجھنے اور نئے افق تلاش کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
تاریخِ اسلامی پر ان کے کام میں ایک خاص جاذبیت ہے۔ وہ صرف واقعات نقل نہیں کرتے بلکہ ہر واقعہ کی روح، اس کے اثرات اور اس سے حاصل ہونے والے سبق آموز پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں ۔ ان کی تحریریں تاریخِ اسلامی کی ژرفیوں میں اتر کر ماضی کی بصیرت اجاگر کرتی ہیں اور قاری کو یاد دلاتی ہیں کہ قوم کی بقاء اور عظمت علم، فکر اور جذبے کی بنیاد پر قائم ہے۔قارئینان کی تحریروں میں ماضی کی عظیم شخصیات،ان کی قربانیوں اور بہادری کے قصے پڑھتے ہیںاور ساتھ ہی موجودہ دور میں قوم کی ذمہ داری اور کردار کو بھی سمجھتے ہیں۔ ندیم غزالی کا قلم قوم کے لیے ایک سبق آموز سفر نامہ ہے جو قاری کو نہ صرف ماضی کی بصیرت دیتا ہے بلکہ مستقبل کیسمت بھی متعین کرتا ہے۔
ادبی دنیا میں ان کا مقام منفرد ہے۔ وہ نہ صرف روایتی ادب کے جانکار ہیں بلکہ عصری اور تجرباتیاصناف میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے کلام میں الفاظ کی روانی، جملوں کی کشش اور معانیکی گہرائی قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ان کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع اور اثر انگیز ہے۔ ان کی تحریریں یہ باور کراتی ہیں کہ حقیقی کامیابی وہ ہے جو فرد کو بامقصد بنائے اور قوم کو روشنی کی طرف لے جائے۔ علمی و ادبی شخصیات کے بارے قومی اخبارات میں چھپنے والے ان کے جاندار اور بے لاگ تبصرے خصوصی طور پر داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
ندیم اختر غزالی کی تحریروں میں الفاظ صرف رنگ نہیں بلکہ جذبے اور جذبۂ عشقِ وطن کی گونج ہیں۔ ان کی تحاریر کا ہر لفظ، ہر جملہ اور ہر خیال قارئین کو سوچنے، سمجھنے اور اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ قوم کے لیے روشنی کے مینار کی مانند ہیں جس کی روشنی دور تک پھیلتی ہے اور آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ وہ محقق بھی ہیں، مصنف بھیہیں اور ایک محسنِ قوم بھی ہیں جو علم و ادب کے ذریعے وطن سے محبت کا عملی نمونہ قائم کر رہے ہیں۔ ان کی تحریریں یہ باور کراتی ہیں کہ حقیقی علمی و ادبی کامیابی وہ ہے جو فرد کو بامقصد بنائے اور قوم کو روشنی کی طرف لے جائے۔ ان کے قلم کی روشنی میں ہر لفظ ایک چراغ ہے، ہر جملہ ایک مینار اور ہر خیال ایک راستہ ہے جو قاری کو علم، تخیل اور حبِ وطن کے حسینراستوں کی طرف لے جاتا ہے ۔ ان کی تحریریں نہ صرف تعلیم و تربیت کی بنیاد فراہم کرتی ہیں بلکہ نوجوانوں میں حوصلہ، تجسس اور حبِ وطن کے شعلے بھی بھڑکاتی ہیں۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ندیم اختر غزالی نہ صرف علم و ادب کی دنیا میں روشن ستارہ ہیں بلکہ بچوں اور نوجوانوں کے دل و دماغ میں علم، تجسس اور حبِ وطن کے چراغ بھی جلا رہے ہیں۔ ان کیخدمات صرف علمی و ادبی تحریروں تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک تحریک اور مثال ہیں جو ہر فرد کو اپنے وطن کی خدمت اور ترقی کے لیے محنت کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ندیم اختر غزالی کا نام پاکستان کے علمی اور ادبی ورثے میں ہمیشہ یادگار رہے گا اور ان کی تحریریں نسل در نسل رہنمائیکرتی رہیں گی۔