حسین سجدے میں ہے

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

ویسے تو تاریخ ارض وسماء کا دامن واقعات سے مکمل طور پر پر ہے اور ہر واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دوسرے تمام واقعات سے مختلف ہوتا ہے لیکن مورخین جب بھی حقیقت کی آنکھ سے واقعہ کربلا کا جائزہ لیں گے تو یہ واقعہ ان کو بے مثل اور بے نظیر قرار دینا پڑے گا۔ مذکورہ واقعہ استعارہ ہے عزم و استقلال کا، تسلیم و رضا کا، صبر واستقامت کا، جوش و استقلال کا، دکھ اور ملال کا اور عبد اور معبود کے وصال کا۔ “جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے” ۔ قرآن کے اس پیغام کی تفہیم اور تفسیر نواسہ رسول سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں دنیائے عالم کے سامنے پیش کردی اور ہم سب کو بتا دیا کہ امام کون ہوتا ہے اور امام کو کیا کرنا ہوتا ہے۔ امام اور رہنما بنیادی طور پر ہم معنی الفاظ ہیں اور جب بھی کائنات میں کوئی الجھاؤ پیدا ہوتا ہے تو امام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل پیش کرے اور حل کے راستے میں حائل سب قوتوں کے خلاف ڈٹ جائے اور یوں سینہ سپر ہو جیسے کربلا کا حسین یزیدی قوتوں کے خلاف میدان میں کھل کھلا کے سامنے آیا اور دنیا والوں کو بتا گیا کہ نبی آخر الزماں کی تربیت کا اثر۔ سبحان اللہ سبحان اللہ اور خلیفہ اللہ فی الارض کی ذمہ داری کیسے نبھائی جاتی ہے(شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو۔۔۔۔جبریل لرزتا ہے سمیٹے ہوئے پر کو)
کاش نیابت، خلافت اور حکمرانی ہم پلہ ہو جاتے تو رسم شبیری کا انداز بدل جاتا اور تاریخ کے دھارے کے احوال بدل جاتے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو پسر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنی میراث کی حفاظت کے لئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یزید کی بیعت کرنا حسین جیسے شخص کے لئے ناممکن ہے۔ جب تعلیم وتربیت نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھوں سے ہوئی ہو ایسی صورتحال میں اصولوں پر سمجھوتا ناممکن ہوتا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کی عملی تفسیر پیش کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ یزید کا فاسق وفاجر ہونا سب مورخین نے لکھا ہے اور اس سلسلے میں حضرت حسین کے ہم عصر سارے صحابہ کرام متفق علیہ تھے۔ ہاں حسین نے نہ صرف کہا بلکہ اپنی بات کو کر کے بھی دکھا دیا اور ہم سب پر واضح کردیا کہ نواسہ رسول ہونے کا حق یوں ادا کیا جائے کہ حریم ذات میں شور برپا ہو جائے اور بتکدہ صفات میں الحفیظ الامان کی صدائیں گونجنے لگ جائیں۔ بلکہ زمین و زمن سکتے میں آجائیں اور مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہو جائے کہ عبدیت کا صحیح مفہوم کربلا کی رنگین وسادہ داستاں سے ہی لیا جا سکتا ہے
سید عالی مقام کو جاننے اور پہچاننے کے لئے کسی تاریخ کی کتاب کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ احادیث کی مستند کتب ہی کافی ہیں۔ اللہ کے آخری نبی نے اپنے نواسے کے بارے میں کیا کیا نہ فرمایا ہے۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ حسن اور حسین جنت کے سب جوانوں کے سردار ہیں۔ حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرامین امت پر حجت ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر ہی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ اصحاب الرائے بھی اس سلسلے میں ایک ہی پیج پر ہیں۔ کجا یزید اور کجا امام۔ ویسے بھی یزید اور امام حسین کا تقابلی جائزہ۔ افسوس صد افسوس۔ رائے ہمیشہ شہادت کی بنیاد پر قائم کی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امام حسین نے کبھی بھی خلیفہ بننے کا اظہار نہیں کیا تھا حالانکہ اگر وہ خلیفہ بننے کی خواہش ظاہر بھی کردیتے تو کوئی خلاف عقل اور خلاف شرع بات نہیں تھی۔ اصل معاملہ تو یہ تھا کہ یزید کی بیعت کی جا سکتی ہے یا کہ نہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا حساس ترین معاملہ تھا چونکہ مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فاسق وفاجر کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا اور اس دور کا مقام و مرتبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا صحابی بھی امام حسین تھا اور نسب رسول کی بابت ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی اور اس ذمہ داری کی حساسیت کا ان کو پوری طرح احساس تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر انہوں نے سب سے پہلے حضرت امیر معاویہ کو دو ٹوک لفظوں میں کہا تھا کہ یزید جیسے شخص کی بیعت کرنا میرے جیسے کے لئے ممکن نہیں ہے اور اسی موقف کو انہوں نے دس محرم اس وقت تک دہرایا جب تک کہ ان کا سر تن سے جدا کردیا گیا اور پھر تو کربلا معلے کے ذرے ذرے نے گواہی دی کہ جس شخص کے دور اقتدار میں خاندان رسول کے سارے مردوں کو تہ تیغ کردیا جائے اور ایک بیمار بچے اور مستورات کو بیڑیاں پہنا کر بازاروں میں گھمایا جائے اور پھر یزید کے دربار میں بطور قیدی پیش کردیا جائے اس کی بیعت تو دور کی بات ہے ایسے شخص پر لعنت بھیجنا روا ہوتی ہے۔ خلافت ہو یا حکمرانی اس کی ایک عمر ہے اور اس کے بعد ” کرمک ومور کے جبڑوں میں سلاطین کے بدن” اور عبدیت کے تقاضے نبھانے والوں کی قبریں اور وہ بھی حسین علیہ السلام۔ حریت کی معراج اور آنے والوں کو منفرد اور اچھوتا پیغام۔ جان جس کی دی ہوئی ہے اس کی تعلیمات کو دنیا پر واضح کرنے کے لئے دینی بھی پڑے تو ست بسم اللہ۔ مذکورہ قربانی کو ایک نہ ایک دن سب ذبح عظیم کہنے پر مجبور ہو جائیں گے اور پھر یزید پر لعنت بھیجنے اور امام عالی مقام کی یاد میں آنسو بہانے کو لازم سمجھا جائیگا۔ شعور کا سفر جاری ہے اور منزل مذکور بہت قریب ہے۔ چند کم فہم تاحال گو مگو کے عالم میں ہیں شاید شعور کا سفر ابھی ادھورا ہے۔ یقییننا ادھورا اور نامکمل ہے۔ (انسان کو ​

Comments (0)
Add Comment