**سچا عشق حسینؑ علیؑ دا باہو**

تحریر: امجد علی

دس محرم، یومِ عاشور، جب بھی آتا ہے، 61 ہجری کے کربلا کے زخمی لمحوں کی یاد کو لہو لہو کر دیتا ہے۔ دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن وہ پیاسا قافلہ، جو دینِ حق کی بقا کے لیے اُترا، آج بھی اپنے لہجے میں ایک ایسا پیغام رکھتا ہے جو صدیوں کی حد بندیوں سے آزاد ہو کر ہر سماعت اور دل میں اتر آتا ہے
یہ پہلا واقعہ تو نہیں تھا
تاریخ کی گردش میں سلطنتیں بنتی اور مٹتی رہیں، مگر حق و باطل کی کشمکش ازل سے جاری ہے۔ کبھی موسیٰؑ فرعون کے مقابل، کبھی ابراہیمؑ نمرود کے سامنے، اور پھر نبی کریم ﷺ کے نواسے حسینؑ اکہتر ساتھیوں کے ساتھ، یزید جیسے جابر کی 40 ہزار سے زائد فوج کے مد مقابل ہوئے۔

کربلا کا معرکہ صرف ایک سیاسی تصادم یا تخت و تاج کی لڑائی نہ تھی، بلکہ یہ دینِ محمدی کے تحفظ، اور توحید کی سربلندی اور فتح یابی کا مشن تھا۔ یزید خلافت کو موروثی کر کے اسے باطل کے راستے پر لے جانا چاہتا تھا، اور امام حسینؑ نے اس کی بیعت سے انکار کر کے واضح کر دیا کہ دین کو مصلحت کے نام پر بیچا نہیں جا سکتا۔

کربلا میں جو کچھ پیش آیا، وہ صرف زمین پر ایک جنگ نہ تھی بلکہ آسمانوں پر گونجتی ہوئی صدائے حق تھی۔ یہاں جو سپاہی تھے، وہ آسمانِ ولایت کے ستارے تھے حسینؑ بن علیؑ، وہ مقدس ہستی جن کے قدموں کے نشان بھی رحمت بن جاتے تھے۔ اُن کا تعلق اُس خانوادے سے تھا جس پر قرآن نے طہارت کی مہر ثبت کی، جن پر درود نازل ہوتا ہے، اور جن کی محبت کو دین کا جزو قرار دیا گیا۔

امام حسنؑ و حسینؑ کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کے لیے جوڑے آسمان سے اُترتے تھے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے لیے من و سلویٰ نازل ہوا، اسی طرح اہلِ بیتؑ کے لیے عطائیں اُتریں، مگر ان کے مزاج میں قناعت اور فقر کا جمال چھپا تھا۔ ان کا در ہمیشہ کھلا رہا، اور ان کے دربار سے کوئی سوالی خالی نہ لوٹا۔ یہ وہ فقر تھا جو سلاطین سے بے نیاز اور خالقِ کائنات سے جڑا ہوا تھا۔

قربانی کی رؤیت حضرت ابراہیمؑ سے چلی، جب انھوں نے خواب میں بیٹے کو قربان کرتے دیکھا، اور حضرت اسماعیلؑ نے بلا چوں و چرا سرِ تسلیم خم کر دیا۔

بے خطر آتش نمرود میں کود پڑا عشق
عقل ہے محو تماشائے بام ابھی
پھر اسی قربانی کو قرآن نے “ذبح عظیم” کہا، اور کربلا میں حسینؑ کی قربانی نے اُسے باطنی کمال تک پہنچایا۔ اہلِ معرفت کے نزدیک امام حسینؑ کی شہادت اسی “ذبح عظیم” کی روحانی معراج تھی۔

یہ سوچنے کا مقام ہے اگر حضرت اسماعیلؑ کی ایڑی سے چشمہ پھوٹ سکتا ہے، اگر حضرت علیؑ کا ذوالفقار پتھر میں راستہ بنا سکتا ہے، تو کیا حسینؑ کے لیے فرات سے پانی لینا مشکل تھا؟ ہرگز نہیں۔ مگر پھر بھی پیاس؟ پھر بھی سکوت؟ نہ دعا، نہ فریاد، نہ شکوہ، کیوں؟

اس کا جواب عشق میں چھپا ہے، اسی رازدار عشق میں جسے حضرت سلطان باہوؒ نے یوں بیان کیا۔:

سچا عشق حسینؑ علی دا باہو
سر دیوے، پر راز نہ بھنے ہو!

یہ صرف دو مصرعے نہیں، پوری کربلا کا نچوڑ ہیں!
یہ وہ صدا ہے جو صدیوں سے وفا کی گلیوں میں گونج رہی ہے،
یہ وہ اصول ہے جو عشق کے ہر دعوے دار کو پرکھتا ہے۔
حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں:
سچا عاشق وہ ہے جو محبوب کی راہ میں سر دے دے، لیکن رازِ عشق کو افشا نہ کرے۔
اور یہی امام حسینؑ نے کربلا میں کر دکھایا!
ان کے پاس دعا تھی، جس سے صحرا میں بارش برس سکتی تھی۔
ان کے پاس کرامت تھی، جس سے وقت پلٹ سکتا تھا۔
ان کے پاس آسمان کی تائید تھی، جس سے فرشتے صفیں باندھ سکتے تھے۔
مگر حسینؑ خاموش رہے…
مانگا تو صرف پانی،
شکوہ تک نہ کیا۔
نظر کے سامنے جوان بیٹے، بھائی، بھتیجے، اصحاب قربان ہوتے گئے،
مگر نہ کوئی فریاد، نہ آپ و بقا نہ کوئی راز فاش کیا۔

پر سوال یہ ہے…
کیا راز تھا جو امام حسینؑ نے سینے میں چھپا رکھا تھا؟
کیا وہ مقامِ رضا تھا؟
کیا وہ دیدار کا نشہ تھا؟
کیا وہ رب سے وصال کی بے قراری تھی؟
یا اس سے بھی بڑھ کر کچھ تھا…

وہ راز محمدؐ کی امت کی اصل میراث تھا،
وہ راز حق و باطل کی تمیز کا معیار تھا،
وہ راز اختیار کے باوجود انکار کی جرأت تھی،
وہ راز یہ تھا کہ
“باطل کا انکار تلوار سے نہیں، کردار سے دینا کہیں بہتر اور قوی ہے۔”

کربلا میں حسینؑ نے ظاہری فتح کو ٹھکرا کر، باطن کی عظمت کو دنیا پر آشکار کیا۔
انہوں نے دکھا دیا کہ جو عاشق ہوتا ہے،
وہ اپنے محبوب کی حکمتوں کا امین ہوتا ہے،

اسی لیے خاموشی ان کا سب سے بڑا احتجاج بنی،
کیونکہ جو راز فاش ہو جائے، وہ راز نہیں رہتا،
اور جو پردے میں رہے،
وہی حسینیت بن کر ہر دل میں اترتا ہے،
ہر دور ظالم کے خلاف ایک نئی کربلا بساتا ہے۔
یہی تو عشق کا کمال ہے، یہی اس کا ابدی جلال ہے!
سلطان باہوؒ کی فکر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عشقِ حسینؑ صرف تاریخ کا یادگاری باب نہیں، بلکہ ایک روحانی معرکہ ہے، جو عقل کی حدوں سے آگے جا کر روح کو بیدار کرتا ہے۔ کربلا نے ہمیں سکھایا کہ ظاہر فنا ہو سکتا ہے، مگر اگر وہ راہِ حق کے لیے قربان ہو جائے تو باطن ابدیت اختیار کرلیتا ہے۔ وہ قوی اور قائم ہو جاتا ہے پھر وہ ایسی نادیدہ حقیقت میں ڈھلتی ہے جو وجود تو نہیں رکھتی مگر اپنی مہکار کو ہمہ وقت جاری ساری رکھتی ہے
یہی وہ کامیابی ہے جس کے چرچے صدیوں بعد بھی عرش و فرش پہ جاری ہیں۔ آج بھی دنیا حسینؑ کے ذکر سے مہکتی ہے، قلوب روشن ہوتے ہیں، اور زبانیں سلام کرتی ہیں:

چراغ و مسجد و منبر سلام کہتے ہیں
نبی، رسول، پیغمبر سلام کہتے ہیں
علی​

Comments (0)
Add Comment