اسٹیٹ بنک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بینکنگ سسٹم میں تین فیصد اکاونٹس میں ایک ملین سے زائد ،تقریبا” ستر فیصد اکاونٹس میں پچاس ہزار روپے سے کم رقم جبکہ چھبیس فیصد اکاونٹس میں پچاس ہزار سے دس لاکھ تک کی رقم موجود ہے جو اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں بینکنگ نظام میں موجود اکثریت کے پاس بچت یا سرمایہ محدود مقدار میں ہے اور صرف ایک محدود طبقے کے پاس ہی بڑی رقم موجود ہے ۔یہ فرق معیشت میں عدم مساوات آمدنی کی تقسیم میں فرق اور عوام کی بینکنگ تک رسائی کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔گویا ستر فیصد اور چھبیس فیصد عام عوام کے اکانٹ دراصل وہ سیونگ اکاونٹ ہیں جن کی بنیادوں پر بینکنگ انڈسڑی کی عمارت کھڑی ہے ۔
آج سے پچاس سال قبل جب میں نے بینک ملازمت کا آغاز کیا تو ہمارے تمام بینک قومی اور سرکاری ادارۓ ہوا کرتے تھے ۔جہاں ملنے والی تنخواہ دوسری ملازمتوں کی نسبت اس لیے زیادہ ہوا کرتی تھی کہ یہاں کام زیادہ کرنا پڑتا تھا ۔ اچھے اور اجلے لباس میں صاف ستھرا ماحول اور پنکھوں تلے کسرسی میز پر بیٹھ کر کام کرنا دور سے تو بہت ہی اچھا لگتا تھا ۔نوٹوں اور کرنسی کو دیکھ دیکھ کر دل ویسے ہی باغ باغ ہو جاتا تھا ۔کاروباری حضرات کے علاوہ عام لوگ سرکاری ادارہ سمجھ کر بڑا ڈر ڈر کر بینک میں آتے تھے ۔بینک ملازم کو سرکاری افسر یا اہل کار سمجھا جاتا تھا ۔اسی لیے بینک سے باہر بھی بینکار کو بڑی عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا ۔اس دور میں بینکار کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا تھا کہ کس طرح سے لوگوں کو بینکنگ کے لیے بینک لایا جاۓ ؟ انکی گھروں اور آڑھتیوں کے پاس پڑی ہوئی رقم کےبینک میں تحفظ کے بارۓ میں لوگوں کے خدشات کیسے دور کئے جائیں ؟ بھٹو دور میں بینکوں کے قومیانے اور نوٹوں کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں میں اپنی رقوم کے بارے میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا تھا ۔ایسے میں بینکوں نے لوگوں کو بینکوں کی جانب مائل کرنے کے لیے ان کی رقم پر سود یا پرافٹ دینے کی بہت ساری اسکیم کا اجرا ء کیا جہاں پانچ سال میں رقم دوگنی کر دی جاتی تھی ۔قومی بچت کا تصور پیش کیا گیا اور لوگوں کو بتایا جاتا تھا کہ بینک میں آپکی رقم بھی محفوظ ہے اور بڑھتی بھی رہتی ہے مگر لین دین پر کچھ پابندیاں ہوتی تھیں جن میں کچھ بڑی رقم لینے کے لیے پہلے سےنوٹس دینا شرط ہوا کرتی تھی دو یا تین سے زیادہ ٹرانزیکشن پر پابندی تھی پورے مہینے رقم اکاونٹ میں رکھنے پر ہی سود یا پرافٹ ملتا تھا آخری دن بھی رقم نکالنے کی صورت میں پورے ماہ کا سود یا پرافٹ ضائع ہو جاتا تھا ۔لیکن پھر بھی لوگوں کو بینک تک لانا جوۓ شیر لانے کے مترادف ہوا کرتا تھا ۔ کاروباری حضرات کے لیے کرنٹ اکاونٹ کی سہولت متعارف کرائی گئی تھی جس پر سود یا پرافٹ نہیں دیا جاتا تھا لیکن لین دین کی مکمل آزادی ہوا کرتی تھی ۔اس کے باوجود کاروباری حضرات بھی اپنی رقوم سیونگ یا منافع والے بچت اکاونٹ میں رکھتے تاکہ پرافٹ کمایا جاسکے ۔بینک اپنے ایڈونسز سے منافع کماتے رہے اور لوگوں کو مزید قومی بچت کی جانب راغب کرنے کے لیے ان سیونگ اور فکس اکاونٹس پر شرح سود بڑھائی جاتی رہی اور ان اکاونٹس پر سے پابندیاں بھی نرم ہوتی چلی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فنڈز حاسل کئے جا سکیں ۔جوں جوں لوگوں کو بینکوں کی افادیت کا احساس ہوتا گیا توں توں بینکوں کو کسٹمرز سے زیادہ اپنے پرافٹ کی فکر لاحق ہونے لگی ۔تو انہیں یہ احساس ہوا کہ سیونگ اکاونٹ تو بینک کے لیے کوئی خاص فائدہ مند نہیں ہیں کیونکہ ان پر ایک خاص شرح سے منافع دینا پڑتا ہے اور بینک کی بچت کم ہو تی ہے تو انہوں نے کرنٹ اکاونٹ پر توجہ دینی شروع کردی ۔پہلے زیادہ منافع والے فکس ڈیپازٹ کی حوصلہ شکنی کی گئی پھر رفتہ رفتہ سیونگ اکاونٹس کی بجاۓ پوری توجہ کرنٹ اکاونٹ کی جانب مبذول کر دی گئی جس کے نتیجے میں منافع حاصل کرنے والے لوگ قومی بچت کی جانب راغب ہونے لگے اور بینکوں کا فوکس کرنٹ اکاونٹ پر ہی رہ گیا ۔کرنٹ اکاونٹ دراصل وہ سونے کی چڑیا ہے جو بینک کو منافع دیتی ہے اور اکاونٹ ہولڈر صرف سروسز اور سہولتوں کے مزے لیتا ہے ۔کاروباری حضرات کے لیے تو کرنٹ اکاونٹ ایک بہتر پراڈکٹ ہے کیونکہ اس میں ٹرانزیکشن کی کوئ حد مقرر نہیں ہوتی جنکہ سیونگ اکاونٹ میں محدو دٹرانزیکشن اور محدو رقم ڈیپازٹ کرانے کی سخت شرائط ہوتی ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ سیونگ اور فکسڈ ڈیپازٹ کو برانچ اور بینک کی بنیاد سمجھا جاتا تھا اور درحقیقت آج بھی دیکھا جاۓ تو ہر بینک اور برانچ کی مضبوط بنیادیں سیونگ اکاونٹ سے ہی تعمیر ہوتی ہیں ۔بینک کنونشنل ہو یا اسلامی کرنٹ اکاونٹ ٹارگٹ پر یہ پالیسی یکساں ہے ۔ہمارے زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ ایڈونسز میں اضافہ کرنٹ اکاونٹ بھی بڑھاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب بینکوں کی برانچوں کو سالانہ ٹارگٹ دئیے جاتے تھے جو ٹوٹل ڈیپازٹ ،ایڈوانسز اور سالانہ پرافٹ میں اضافے کے لیے ہوتے تھے ۔گذشتہ روز ایک بینکار سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑا پریشان تھا کہنے لگا کہ اب ہمارے بینک نے ہمارۓ ٹارگٹ ٹوٹل ڈیپازٹس کی بجاۓ صرف کرنٹ اکاونٹ پر دینے شروع کردئیے ہیں اور وہ بھی ایوریج گروتھ کے ساتھ ہونا ضروری ہے ۔فکس اور سیونگز اکاونٹ کو ڈیپازٹ ٹارگٹ میں شمار ہی نہیں ہوتے ۔لوگوں کو کرنٹ اکاونٹ کی جانب لانا آسان اس لیے بھی ہو گیا ہے کہ پرافٹ براۓ نام ہوتا ہے اور اس پر بھی ٹیکس اور زکوۃ کی کٹوتی کے بعد کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔پہلے بینک میں ٹارگٹ سالانہ ،ششماہی اور سہ ماہی طور پر دئے جاتے تھے پھر ماہانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کی پوچھ گچھ شروع ہوئی اور پھر ہفتہ وار اور آخر کار روزآنہ کی بنیاد پر ڈیپازٹ ٹارگٹ دیا جاتا ہے جو ایوریج کرنٹ اکاونٹ پر فکس ہوتا ہے ۔یہ ٹارگٹ ہر اس پراڈکٹ کے ہوتے ہیں جہاں سے بینک منافع کما سکیں ان ٹارگٹ میں سیونگ اور فکس اکاونٹ شامل نہیں ہوتے کیونکہ انہیں مہنگے ڈیپازٹ شمار کیا جاتا ہے۔کرنٹ اکاونٹ کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے بینکار لوگوں کو زبردستی کرنٹ اکاونٹ میں دھکیل دیتے ہیں ۔سیونگ اکاونٹ عوامی بچت اور مالیاتی شمولیت کی بنیاد ہے جبکہ کرنٹ اکاونٹ بینک کی آمدنی اور کاروباری سرگرمیوں کا اہم ذریعہ ہے ۔اس لیے بینک سیونگ اکاونٹس کو بنیاد تو مانتے ہیں لیکن اپنے کاروباری مفادات کے لیے کرنٹ اکاونٹس پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔بینک ڈیپازٹس کو تین حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے ۔ہائی کاسٹ ڈیپازٹ یعنی وہ ڈیپازٹس جن پر زیادہ منافع ادا کرنا پڑے ان میں زیادہ تر فکسڈ ڈیپازٹس ہوتے ہیں جو مہنگے شمار ہوتے ہیں ، نو کاسٹ ڈیپازٹس یعنی ایسے ڈیپازٹس جن پر بینک کو کوئی کاسٹ ادا نہیں کرنی پڑتی کرنٹ اکاونٹ ہوتے ہیں ۔ لو کاسٹ ڈیپازٹس یعنی جن پر منافع دیا تو جاۓ مگر معمولی ہو تا ہے یہ سیونگ اکاونٹس ہوتے ہیں اور ان اکاونٹس پر معمولی پرافٹ دے کر مختلف سروسز کے بڑے چارجز کی کٹوتی کر لی جاتی ہے جن میں پرافٹ پر ٹیکس ،سالانہ زکوۃ اور ایس ایم ایس الرٹ چارجز ،اے ٹی ایم چارجز ، اور اے ٹی ایم کی تجدید کی فیس اور اس کی ہر ٹرانزیکشن پر چارجز شامل ہوتے ہیں اگر منٰی اسٹیٹ منٹ لیں ،بیلنس انکوائری اور ٹرانسفر کی سہولت لیں تو ہر چیز کے چارجز الگ الگ ہوتے ہیں ۔جو منافع یہ بینک ادا کرتے ہیں تقریبا” اتنا ہی ان چارجز کے ذریعے کاٹ لیتے ہیں یوں سیونگ اکاونٹ کھولنے اور اس میں رقم رکھنے کی کشش خود بخود ختم ہو جاتی ہے ۔کرنٹ اکاونٹس کی یہ دوڑ تقریبا” سب کمرشل بینکوں میں جاری ہے ۔لیکن آخر کرنٹ اکاونٹس کا یہ مخصوص اور محدود کاروباری طبقہ کس حد تک ان بینکوں کے ڈیپازٹ کو سپورٹ کر پاۓ گا ؟
سوال یہ ہے کہ کیا رفتہ رفتہ سیونگ اکاونٹ کی جگہ کرنٹ اکاونٹ ہی رہ جاۓ گا اور بینک ملازمین کو صرف کرنٹ اکاونٹ کا ہی ٹارگٹ کرنا ہو گا ۔نیشنل سیونگز کا تصور ذہنوں سے نکل جاۓ گا یا پھر چھوٹی چھوٹی سیونگز اور بچت پر منافع ادا کرکے اور غیر ضروری چارجز ختم کرکے بینک اپنے وسیع منافع میں سے کچھ حصہ ان اکاونٹ ہولڈرز کو بھی دیں گے جن کی آج بھی تعداد کل بینک اکاونٹس کی ستر فیصد ہے اور ان میں موجود ڈیپازٹس کل ڈیپازٹس کا تقریبا” پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہیں ۔ان پر منافع کی شرح میں کمی کا فائدہ قومی بچت کے ادارۓ کے ساتھ ساتھ نئے اور پرانے مائیکرو فنانس بینک خوب اٹھا رہے ہیں جن کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ متاثر کن شرح منافع کی وجہ سے ڈیپازٹس کا ایک بڑا حصہ ادھر شفٹ ہو رہا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا کمرشل بینک سیونگ میں موجود پچاس فیصد ڈیپازٹ بھی کرنٹ میں منتقل کر سکیں گے یا پھر رفتہ رفتہ اپنے بنیادی ڈیپازٹ سے ہاتھ دھوتے جائیں گے ؟بینک ملازمین روزآنہ کی بنیاد پر صرف محدود کرنٹ اکاونٹ کے مشکل ترین ٹارگٹ کا چیلنج کب تک برداشت کر پائیں گے ؟ کیا صرف کرنٹ اکاونٹ بینکوں کے منافع کو سہارا دے سکے گا ؟یا پھر منافع کمانے کے لیے اپنے اخراجات میں کمی اور وسیع پیمانے پر چھوٹے اور بڑے ایڈونسز اور انوسٹمنٹ پر توجہ دی جاۓ گی ؟