فلسفہ شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام

تحریر : فیصل زمان چشتی

واقعہ کربلا اسلامی تاریخ بلکہ انسانی تاریخ کا ایک ایسا المناک اور اہم ترین باب ہے جس نے نہ صرف امت مسلمہ پر گہرے اثرات مرتب کیے بلکہ انسانیت کو بھی ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا ایک ابدی درس دیا۔ یہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا فلسفہ ہے جو ہر دور میں حق و باطل کی کشمکش، قربانی کے مفہوم اور الہیٰ احکامات کی پاسداری کی یاد دلاتا ہے۔ واقعہ کربلا کا بنیادی محرک یزید بن معاویہ کی خلافت کا اعلان اور اس کی غیر اسلامی روش تھی۔ یزید کا کردار، جس میں فسق و فجور، لاقانونیت اور اسلامی تعلیمات سے انحراف شامل تھا، اسلامی ریاست کے اخلاقی اور سماجی ڈھانچے کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا خلفائے راشدین کے بعد اسلامی نظام کی بجائے ملوکیت کا آغاز ہو چکا تھا، اور یزید کی خلافت اس ملوکیت کی ایک بدترین مثال تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے اس ملوکیت کو اسلامی اقدار کے منافی سمجھا اور اس کی بیعت سے انکار کو اپنا حق اور فرض جانا خاص طور پر مدینہ اور مکہ، میں یزید کی حکمرانی کو قبول نہیں کیا گیا۔
امام حسین علیہ السلام کا بنیادی مقصد دین اسلام کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنا تھا۔ وہ دیکھتے تھے کہ یزید کی حکومت دین کو مسخ کر رہی ہے، اور اگر اس انحراف کو روکا نہ گیا تو اسلام کی تعلیمات اپنی اصلیت کھو دیں گی یہ امام حسین علیہ السلام کی بیعت سے انکار کی بنیادی وجہ تھی ۔ آپ کا مقصد نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تھا، جو اسلامی نظام کا ایک بنیادی ستون ہے۔ یزید کے دور میں یہ اصول پامال ہو رہا تھا امام حسین علیہ السلام نے ظلم اور جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ آپ کی نظر میں یزید کی حکومت ظالم اور فاسق تھی، اور اس کی بیعت کرنا ظلم کی تائید کے مترادف تھا امام حسین علیہ السلام نے عدل، مساوات، آزادی اور انسانیت کے ان اصولوں کا تحفظ کرنا چاہا جو اسلام کے بنیادی اصول ہیں امام حسین علیہ السلام نے اپنی شہادت کے ذریعے امت مسلمہ کو بیدار کرنا چاہا تاکہ وہ اپنے حقوق کی شناخت کریں اور ظالم کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت پیدا کریں کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ 72 افراد تھے، جبکہ یزیدی فوج کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ یہ ایک غیر مساوی مقابلہ تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام مادی کامیابی کے لیے نہیں بلکہ اصولوں کی خاطر لڑ رہے تھے۔یزیدی فوج نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا، جو ظلم و بربریت کی انتہا تھی۔ یہ غیر انسانی فعل اس بات کا ثبوت ہے کہ یزیدیوں کو اسلامی اخلاقیات سے کوئی سروکار نہیں تھا کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال نے بے مثال صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں نے بھی دین کی خاطر ہر مصیبت کا سامنا کیا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا فرض ہے، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ یہ واقعہ حق و باطل کے درمیان واضح لکیر کھینچتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے یہ ثابت کیا کہ اقتدار اہم نہیں، بلکہ حق پرستی اہم ہے امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل و عیال، اپنی جان اور ہر چیز کی قربانی دے کر یہ ثابت کیا کہ دین کی بقا کے لیے ہر قسم کی قربانی دی جا سکتی ہے کربلا کا واقعہ صرف ایک ماضی کا واقعہ نہیں بلکہ یہ ہر دور میں بیداری اور انقلاب کی علامت ہے۔ یہ مظلوموں کو ہمت دیتا ہے کہ وہ ظالم کے خلاف کھڑے ہوں۔ شہادت امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کو یہ درس دیا کہ باطل کے سامنے سر جھکانا بزدلی ہے، اور حق کے لیے لڑنا عین عبادت ہے۔
محرم الحرام کے دس دن ہر سال ہمیں یہ سبق اور درس دیتے ہیں کہ یہ دنیا ایک امتحان ہے یہاں کی ظاہری کامیابی دائمی نہیں ہے بلکہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے یہاں جو کریں گے آخرت میں وہ بھریں گے۔ اگر دین حق اور خداوند عالم کے احکامات کو چیلنج کریں گے تو نہ یہ دنیا رہے گی اور نہ آخرت میں سے کچھ حصہ ملے گا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی قربانی دے کر یہ بھی ثابت کیا کہ ایک مسلمان کے لیے آخرت کی فکر ، اللہ تعالٰی کا حکم اور دین اسلام ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ آپ جس جگہ پر ہیں جس حالت میں ہیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور نتائج کی ذمہ داری اللہ سبحان اللہ تعالٰی پر ڈال دیں تو خالق کائنات آپ کو رسوا نہیں ہونے دے گا بلکہ دائمی کامیابیوں سے سرفراز کرے گا اور اعلٰی ترین مراتب پر فائز کرے گا مگر شرط یہ ہے کہ صبر کے ساتھ حق پر ڈٹے رہیں۔ حضرت امام حسین نے ظاہری نتائج کی پرواہ کئے بغیر جرات و ہمت سے کام لیا ،اللہ پر بھروسہ کیا، اپنے تمام نقصانات پر اللہ تعالٰی کی بات کو ترجیح دی – نتیجہ یہ نکلا کہ امام حسین علیہ السلام اور اس کے رفقاء شہید ہوکر بھی فاتح بنے اور امر ہوگئے جبکہ پزید اور اس کے چیلے ظاہری فتح کے باوجود قیامت تک کے لیے رسوا ہو گئے۔ انہیں دنیا میں بھی رسوائی و ذلالت ملی اور آخرت میں بھی جہنم کا ایندھن بنے اور قیامت تک لعنتیں ان کا مقدر ٹھہریں ۔
فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام محض رنج و غم کا مظہر نہیں بلکہ یہ ایک دائمی تحریک ہے جو ہر دور میں انسانیت کو ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف زندہ رہنا نہیں بلکہ باوقار زندگی گزارنا اور حق کی راہ میں قربانی دینا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون سے اسلام کی آبیاری کی اور

Comments (0)
Add Comment