فکر حسین اور نوجوان

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

ٍنوجوانان جنت کے سردار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ شہادت مسلمان نوجوانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے دستور حیات ہے ۔وہ ملت کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور دنیا و آخرت میں نوجوان مسلمانوں کے لیے رہبر اور جنت کے سردار ہیں ۔ٍٍٍٍٍٍٍدنیا میں بھی ان کا فلسفہ اور فکر نوجوانوں  کو شعور حیات بخشتا ہے اور جنت میں  وہ بھی ان کی رہنمائی کےعلم تلے ہوں گے۔امام حسین ؑ کی فکر اور سوچ “ طاقت حق نہیں بلکہ حق ہی طاقت ہے “کے اصول پر قائم ہے ۔لہذا نہ تو طاقت کی پرستش کی جاے اور نہ ہی اس کا ساتھ دیا جاے  بلکہ حق کا ساتھ دیا جاے حق کا ساتھ دیتے ہوے اگر طاقت علمبرداران حق کو کچل بھی دے تب بھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ اس صورت میں راہ حق کے مسافر زندہ و جاوید ہوجاتے ہیں ۔اور دنیا نے دیکھا کہ آپ شہید ہو کر بھی زندہ ہیں اور یزید تخت بچا کر بھی مردہ ہو گیا اور آج یزیدیت بربریت کا نام ہے اور حسینؑ انسانیت کا استعارہ ہیں یزید مطلق العنانی کا نام ہے اور حسین ؑ مساوات ایمانی کی پہچان ہیں  یہی وہ فکر اور سوچ ہے جو امام حسین ؑ کا ہمار ی نسلوں کو درس ہے اور ہمارے نوجوانوں کے لیے حق اور سچ کا راستہ ہے ۔کہ مظلوموں کا ساتھ دیناحسینیت اور تفرفہ پھیلانا یزیدیت ہے ۔اور کربلا کا پیغام حق کے لیے ظالموں کے خلاف ڈٹ جانا ہے ۔ٍآپ کے بہتر جانثاروں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جنہوں نے امام ؑ کے پیغام پر لبیک کہا  تھا ۔

درد حسین اور فکر حسین دونوں قیامت تک انسانیت کے لیے مشعل راہ رہیں گے درد حسین ہمارے آنسو خشک نہیں ہونے دیتا اور فکر حسین ہمار ےجذبے کم نہیں ہو دیتا ہے واقعہء کربلا حق و باطل کا تاریخِ انسانیت میں وہ نا قابلِ فراموش معرکہ ہے جسے کوئی بھی صاحبِ شعور انسان نظر انداز نہیں کر سکتا۔سانحہ کربلا کے بارے میں اہلِ اسلام کا بچہ بچہ بخوبی علم رکھتا ہے ظلم و ستم کی وہ طویل داستاں جس میں یزید اور آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں نے سیدنا حسین علیہ السلام اور انکے ساتھی افراد کو ناصرف شہید کیابلکہ ظلم وبربریت کے وہ پہاڑ ڈھاے ُ جو ناقابل بیان ہیں ہماری تاریخ بتاتی ہے سیدنا امام حسین علیہ السلام نے دین حق اور خلافت اسلامیہ کی بقا کی خاطر ہر ممکن مفاہمت کی کوشش کی لیکن ناکام پر  یزیدی باطل لشکر کے مقابلے میں بہادری سے میدان میں اترے اپنا سر کٹا دیا مگر قیامت تک آنے والے اہلِ اسلام کے لیے یہ پیغام چھوڑ گئے کہ جہاں بھی نظامِ اسلام اور حق کے خلاف کوئی ظالم یزیدی بن کر سر اٹھائے گا تو حق پر قائم مردِ مومن نوجوان حسینی بن کر اس کےخلاف علم بغاوت بلند کرنا اور حق کے قیام کی خاطر لڑنا اپنا تقاضا ایمانی سمجھیں گے ۔وہ ہماری آنے والی نسلوںاور نوجوانوں کو یہ پیغام دے گئے کہ حق و باطل ،برائی اور اچھائی ،نیکی وبدی میں فرق کیا ہوتا ہے ۔انہوں نے اپنے اہل خانہ اور اپنے جانثار ساتھیوں کے خون سے حق وباطل کے درمیان فرق ظاہر کرنے کے لیے جو سرخ لکیر کھنچ دی ہے وہ قیامت تک ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ان کی  بے مثال قربا نیوں نے سچ اور مظلوم  کا ساتھ دینے  اور ظالم اور آمر کی راہ میں کھڑے ہو کر اسے روکنے کا درس دیا ہے ۔اسی لیے کربلا کے بعد حق کا ساتھ دینے والے کو حسینی اور باطل کی قوتوں یزیدی  کہا جاتا ہے ۔۔آئیے آج ان ٹھوس حقائق پر نظر ڈالتے ہیں کہ جن کی بنیاد پر سیدنا حسین علیہ السلام یزید کے خلاف برسر پیکار ہوے ۔سوال یہ ہے کہ کیا سیدنا حسین علیہ السلام کو نعوذ بااللہ اقتدار ،اختیار ،بادشاہت اور سلطنت کی خواہش تھی ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے کیونکہ مسلمان اور مومن کی تلوار ہمیشہ دین کی سربلندی اور ظلم وبربریت کے خاتمہ کے لیے میان سے باہر آتی ہے  نہ کہ ایسا اپنے ذاتی مفاد پیش نظر ہوتا ہے  مومن اللہ  اور اسکے رسول ؐ کے لیے لڑتا ہے ۔اگر میرے امام کو یہ اقتدار مقصود ہوتا تو صرف بہتر(72) افراد کی جماعت جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے کو لے کر ایک بڑی یزیدی سلطنت کی طرف رخ نہ کرتے انہوں نے تو دین کی سربلندی ،اسلام کی بقا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرکے ایک بے مثال اور لازوال تاریخ رقم  کی اور ثابت کیا کہ مومن کی تلوار ہمیشہ دین کی سر بلندی اور شر کے خاتمہ کے لیے اٹھا کرتی ہے نہ کہ اپنا مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔علامہ اقبال کے بقول

تیغ بہر عزت دین است بس        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقصد او حفظ آئین است و بس  

فکر حسین علیہ السلام یہ تھی کہ اسلامی حکومت قائم رہے نفاذِ اسلام ہو اور دینِ محمد رسول اللہ کا غلبہ رہےہماری آنے والی نسلیں ملوکیت اور بادشاہت کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں   مگر اس کے برعکس فکرِ یزید یہ تھی کہ اسلامی خلافت ملوکیت میں بدل اسلامی قانون حکمراں کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے رہ جاےُ ۔ تاریخِ اسلام میں یزیدی نظام وہ پہلا نظامِ حکومت تھا جس نے اسلامی خلافت کا خاتمہ کیا اور ملوکیت اور بادشاہت کا آغاز ہوا  ۔حضرت حسین ابن علی رضی اللہ  عنہ کا مؤقف اس لحاظ سے حق پر مبنی تھا کہ انھوں نے ملوکیت کا راستہ روکا اور احیاۓ خلافت کے لیے سر بکف اٹھے۔ دینِ اسلام نے تو انسانیت کو نظامِ خلافت عطا کیا تھا نہ کہ نظامِ ملوکیت۔ اسلام میں آمرانہ نظام کو نہیں بلکہ مشاورتی فیصلوں کو اہمیت حاصل ہو تی ہے بہرحال مورخین نے تاریخ میں یزیدی ظلم و ستم، اسلام مخالف پالیسیاں سب درج کر کے واضح کیا کہ یزید نے اسلامی نظام کی جڑ کاٹ کر رکھ دی تھیٍٍ۔ اامام حسین ؒ نوجوانان جنت کے سردار ہیں انہوں نے ہماے نوجوانوں کو جرت بہادری ،حق و صداقت کے ساتھ ساتھ صبر و برداشت ،مفاہمت اور استقامت  کا جو سبق دیا ہے اس کی کوئی مثال  انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔تعلیمات حسین ابن علی ؑ کے بحر  بے کراں سے دو چیزیں  ایسی ہیں کہ جس کسی نے بھی یہ سیکھ لیں اور عمل کر لیا وہ دنیا میں  باعزت اور آخرت میں صاحب کرامت ہوا ہے ۔پہلی کہ خبردار کسی ایسے شخص پر ظلم نہ کرنا جس کے پاس تمہارے ظلم سے بچنے کے لیے خدا کے سوا کوئی مدد گار نہ ہو ۔دوسری  کہ حق اگر چہ کڑوا ہو اس پر ہمیشہ صبر کرو ۔نوجوانوں کو چاہیےکہ وہ واقعہ کربلا اور شان  اور مقام امام حسین ؑ  ؑ کو اپنے مطالعہ کا حصہ بنائیں اور اپنے آپ کو ان کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ یہی دین ودنیا میں کامیابی کا راستہ ہے۔کیونکہ وہ جنت میں نوجوانوں کے سردار اور دنیا میں ان کا کردار نوجوانوں کے لیے راہ ہدایت ہے ۔معاشرہ خواہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی واقعہ کربلا  نے تا قیامت انسانیت کو دو حصوں یعنی حسینیت اور یزیدیت مین تقسیم کردیا ہے ۔یہ ایسا واقعہ ہے جہاں موت زندگی ٹھہرتی ہے  ۔یہ وہ جنگ ہے جو جیتنے والوں نے ہاری  ہے ۔کربلا میں ایک جانب پانی کا دریا تھا تو دوسر جانب پیاس ہی پیاس تھی مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جو پانی پیتے رہے وہ مر  مٹ گئے اورجو پیاسے تھے وہ آج بھی زندہ  ہیں ۔فکر حسینؑ  نوجوانوں کو کے لیے صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک ہے جو انہیں بہادری ،اصول پسندی ،اور انصاف پسندانسان بننے کی ترغیب دیتی ہے ۔آج کے دور  میں جہاں نوجوان بے مقصدیت ،مادہ پرستی اور اخلاقی بحران کا شکارہیں فکر حسین  ؑ ان کے لیے روشن چراغ کی حیثیت رکھتی ہے ۔

گھٹنے نہ ٹیک دے کوئی باطل کے سامنے

بچوں کو سناتے رہو قصہ حسین ؑ   کا

Comments (0)
Add Comment