مرد، مجازی خدا… یا ایک بھولا ہوا کردار؟

تحریر: رخسانہ سحر

مرد کو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ وہ عورت کا “مجازی خدا” ہے… مگر کسی نے کبھی اسے یہ نہیں سکھایا کہ خدا کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
خدا کا مفہوم صرف حکم دینا، فرمان چلانا، یا معاشی کفالت نہیں۔ خدا مطلب ہے: عطا، شفقت، رحمت، تحفّظ، عزت، اور قرب۔ خدا وہ ہے جو دیتا ہے، کبھی تھکتا نہیں، کبھی طعنہ نہیں دیتا، کبھی بے حسی نہیں برتتا۔ وہ محرومی سے نکالتا ہے، بے نیازی نہیں برتتا۔
جب عورت کو کہا جاتا ہے کہ اس کا شوہر اس کا “مجازی خدا” ہے، تو اس سے مراد ہوتا ہے کہ وہ مرد اس عورت کے لیے رحمت ہو، نہ کہ محض حاکم۔
افسوس کہ ہمارے معاشرے کا مرد اکثر اس عنوان کو صرف اپنے حقِ بالادستی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسے یہ تو یاد ہوتا ہے کہ وہ بیوی کا سربراہ ہے، مگر یہ یاد نہیں رہتا کہ وہ اس رشتے میں سب سے پہلے ایک ذمہ دار عطا کنندہ ہے۔
بیوی کا صرف خرچ پورا کر دینا کافی نہیں۔ محبت، احساس، فکر، وقت، احترام – یہ سب بھی اُس کی ضرورتیں ہیں۔ عورت کو صرف روٹی کپڑا نہیں، الفت، توجہ، اور مان بھی چاہیے۔
یہ کیسا مجازی خدا ہے جو اپنی عورت کی بات نہیں سنتا؟ جو اپنی ماں، بہن یا باقی خاندان کے سامنے اپنی بیوی کی عزت کا پاس نہیں رکھتا؟ جو بیوی کی قربانیوں کو سمجھنے کے بجائے اس پر احسان جتاتا ہے؟ یہ وفا نہیں، یہ رشتہ داری کا استحصال ہے۔
محبت فقط تنخواہ سے نہیں تولی جاتی۔ گھر کا نظام صرف کمائی سے نہیں، رویے سے چلتا ہے۔ عورت اگر تمہارے سائے میں سکون نہیں پا رہی، تو پھر تم کیسا سایہ ہو؟ اور اگر تمہاری موجودگی اس کے زخموں میں اضافہ کرتی ہے، تو پھر تم کیسا مجازی خدا ہو؟
وقت آ گیا ہے کہ مرد اس اصطلاح “مجازی خدا” کو صرف زبان سے نہیں، دل سے سمجھیں۔ یہ عنوان عزت کا ہے، حکمرانی کا نہیں۔ یہ مان کا ہے، غرور کا نہیں۔ اور یہ رشتہ فقط جسمانی یا مالی نہیں، بلکہ روحانی اور جذباتی ذمہ داری کا نام ہے۔ہمارے معاشرے میں جب کسی مرد سے کہا جاتا ہے کہ وہ عورت کا “مجازی خدا” ہے، تو وہ فوراً اسے ایک عہدہ سمجھ بیٹھتا ہے، ایک حکمرانی کا پروانہ، جیسے اسے اختیار دے دیا گیا ہو کہ وہ عورت کی زندگی کے ہر پہلو پر بلا شرکتِ غیرے قابض ہو سکتا ہے۔
مگر کیا کسی نے اس سے پوچھا کہ “خدا” کا مفہوم جانتے بھی ہو؟
کیا کبھی اس نے سوچا کہ اللہ رب العالمین کیوں کہلاتا ہے؟
کیونکہ وہ دینے والا ہے، سنبھالنے والا ہے، محرومی سے بچانے والا ہے، عزت دینے والا ہے، اور ظلم سے پاک ہے۔
تو جس مرد کو عورت کا “مجازی خدا” کہا گیا، کیا وہ کبھی خود کو رحم، عطا، کرم اور احترام کا پیکر بنا؟
کیا وہ جانتا ہے کہ محبت کا مطلب صرف گھر کا خرچ پورا کرنا نہیں، بلکہ روح کی پرورش کرنا ہے؟
حضور ﷺ نے فرمایا:
“تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہترین ہے، اور میں تم سب میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے سب سے بہتر ہوں۔”
(ترمذی)
اگر نبی ﷺ نے خود کو بیویوں کا ہمدرد، مشیر، مددگار اور عزت کرنے والا شوہر ثابت کیا، تو پھر آج کا مرد اس مقام پر کیسے فائز ہو سکتا ہے جب وہ عورت کو نظر انداز کرتا ہے، اس کے درد کو معمولی جانتا ہے، یا دوسروں کے سامنے اس کی تحقیر کرتا ہے؟
ایک عورت کے لیے رشتہ صرف چھت اور روٹی نہیں، وہ مان مانگتی ہے، احساس مانگتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس کے زخموں پر مرہم رکھے، نہ کہ وہ زخم دے۔
اکثر مرد یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ زندگی گزارنا، اس کے لیے کمانا اور اسے چند سہولتیں دینا ہی محبت ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ
محبت وہ ہے جس میں عورت خود کو مکمل محسوس کرے، محفوظ، معتبر، اور سراہی گئی۔

علامہ اقبال نے کہا تھا:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
عورت کو رنگ دینے والی ذات اگر مجازی خدا ہو، تو کیا وہ خود بے رنگی، بے زاری اور بے اعتنائی کے اندھیرے میں اسے چھوڑ سکتا ہے؟
بدقسمتی سے، ہمارا مرد اس عنوان کو صرف حاکمیت کے تناظر میں لیتا ہے، رحمت کے تناظر میں نہیں۔
جب کہ “مجازی خدا” ہونے کا مطلب ہے کہ تم عورت کی ہر اس کمی کو پورا کرو جو وہ دنیا سے نہ پا سکے، تم اس کی دعاؤں کا جواب بنو، اس کی کمزوریوں کا لباس، اور اس کے دکھوں کا سایہ۔
مرد اگر اس رشتے میں وفا نہیں کرتا، عزت نہیں دیتا، تو پھر اس “مجازی خدا” کی حیثیت ایک جھوٹے بُت سے زیادہ کچھ نہیں رہتی۔ اور بُت تو آخرکار ٹوٹ جاتے ہیں۔

محبت صرف کما کر دینا نہیں ہوتی…
محبت وہ ہوتی ہے جو عورت کو یہ احساس دے کہ وہ کسی “انسان” کے ساتھ ہے، کسی “خدا” کے رحم و کرم پر نہیں۔

Comments (0)
Add Comment