پانی کی چیخ، بےحسی کی چپ

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

دریائے سوات کی بےرحم موجوں میں ایک ہی خاندان کے دس خوش باش چہرے لمحوں میں خاموش ہو گئے۔ وہ نہ کسی جرم کے مرتکب تھے، نہ کسی خطرناک مہم جوئی کے رسیا۔ وہ تو بس چند دن کے لیے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے آئے تھے اس حسن سے، جسے ہماری حکومتیں اپنی سیاحتی پالیسیوں کے تاج میں جواہر کی مانند پیش کرتی ہیں۔ لیکن اس تاج کے نیچے جو زنگ آلود حقیقت چھپی ہے وہ ہر سانحے کے بعد ایک لاش کی صورت ہمارے سامنے آتی ہے، اور ہم محض موم بتیاں جلا کر، ہیش ٹیگ لگا کر، اور ایک دوسرے پر الزام دھرتے ہوئے اگلے حادثے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

یہ خاندان دریا کے کنارے نہیں اس کے بیچ کھڑا تھا۔ میدانی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان معصوم سیاحوں کو یہ شعور ہی نہ تھا کہ پہاڑی دریا لمحوں میں بپھر جاتے ہیں، اپنا راستہ بدلتے ہیں، اور پُرسکون منظر کو موت کے گھاٹ میں بدل دیتے ہیں۔ انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ دریا کا پانی صرف سطح سے نہیں نیچے سے بھی اپنی قوت دکھا سکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں نہ کوئی وارننگ سسٹم تھا، نہ لائف گارڈ، نہ کوئی اطلاعاتی بورڈ، اور نہ ہی کسی نے یہ زحمت کی کہ آنے والے سیاحوں کو خطرے کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔

حادثہ ہوا، غم چھایا، اور پھر وہی سستا منظرنامہ دہرایا گیا۔ حکومت نے رسمی بیان جاری کیا، اپوزیشن نے پرانی کہانیاں دہرا دیں انتظامیہ نے بےبسی کا راگ الاپا اور عوام نے سوشل میڈیا پر ایک نیا محاذ کھول دیا۔ لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ کیا اس حادثے کو روکا جا سکتا تھا کیا کوئی نظام ایسا نہیں ہو سکتا جو سیاحوں کو صرف خوبصورتی نہیں، خطرات سے بھی خبردار کرے.

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سیاحتی پالیسیوں کو صرف خوبصورت بروشرز اور اشتہارات تک محدود نہ رکھے، بلکہ ان کے ساتھ ایک مکمل حفاظتی نظام بھی وضع کرے۔ سیاحت کے لیے کھولے گئے مقامات پر واضح سائن بورڈز، تربیت یافتہ لائف گارڈز، اور بارش و طغیانی کی صورت میں فوری الرٹ سسٹم ہونا چاہیے۔ ہر دریا، نالے یا جھیل کے قریب مخصوص حدود مقرر ہونی چاہییں جن سے آگے جانے پر سخت ممانعت ہو۔ صرف ٹول پلازہ پر ٹیکس لینا کافی نہیں، ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا اصل فرض ہے کہ وہ انسانی جان کے تحفظ کو پہلی ترجیح دے۔

ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کو چاہیے کہ ہر سیاحتی مقام پر انفارمیشن سنٹر قائم کرے جہاں سیاحوں کو علاقے کے موسمی حالات، خطرات، اور بنیادی ہدایات سے آگاہ کیا جائے۔ مقامی ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز اور گائیڈز کو بھی اس مقصد کے لیے تربیت دی جائے تاکہ وہ سیاحوں کو محفوظ طریقے سے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کا شعور دے سکیں۔

دوسری جانب سیاحوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ پہاڑ صرف خوبصورتی نہیں، خطرات بھی اپنے اندر سمیٹے ہوتے ہیں۔ دریا کے وسط میں کھڑے ہو کر تصویر لینا بہادری نہیں، نادانی ہے۔ مقامی رہنمائی کے بغیر انجان راستے اختیار کرنا سمجھداری نہیں، خودکشی کے مترادف ہے۔ بچوں کی نگرانی موسمی حالات کی جانچ، اور مقامی مشورے پر عمل کرنا صرف احتیاط نہیں زندگی کی ضمانت ہے۔

لیکن سوال یہاں ختم نہیں ہوتا۔ سوال یہ بھی ہے آخر ان لوگوں نے مقامی افراد کی وارننگ کو کیوں نظر انداز کیا؟ کیوں انہوں نے دریا کے کنارے موجود اپنے ہی رشتہ داروں کی پکار پر کان نہ دھرے. کیا یہ لاپرواہی نہیں جس نے دس جانیں نگل لیں؟ سیاحتی شعور صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں، خود عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قدرتی مناظر کے ساتھ فطرت کے اصولوں کا احترام سیکھیں۔

اور سب سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ادارے صرف تب جاگتے ہیں جب لاشیں اٹھائی جا چکی ہوتی ہیں۔ جب تعمیرات ہو رہی ہوتی ہیں، تب نہ کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے نہ کوئی روکنے والا۔ کیونکہ تب جیبیں بھر رہی ہوتی ہیں، فائلیں بند ہو رہی ہوتی ہیں۔ پھر جیسے ہی کوئی سانحہ ہوتا ہے، وہی لوگ سب سے پہلے کیمروں کے سامنے آ کر شور مچاتے ہیں تحقیقاتی کمیٹیاں بنتی ہیں، اور فائلیں ایک بار پھر کسی دراز میں بند ہو جاتی ہیں اگلے حادثے کے انتظار تک۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، نہ شاید آخری ہو۔ ہر سال پہاڑی علاقوں میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں کیونکہ ہم نے سیاحت کو صرف ایک معاشی سرگرمی سمجھا ہے، ذمہ داری نہیں۔ ہم کب سیکھیں گے کہ اشتہاروں میں دکھایا گیا نیلا پانی حقیقت میں کتنا بےرحم ہو سکتا ہے.

دریائے سوات کی موجوں نے اس بار صرف دس زندگیاں نہیں نگلیں، بلکہ ہمارے نظام کی بےحسی، سیاست کی خود غرضی اور ریاستی مشینری کے کھوکھلے پن کو بھی ننگا کر دیا ہے۔ مگر ہمیں شاید تب ہی ہوش آئے گا جب سیلاب ہمارے اپنے دروازے پر دستک دے گا اور ہم آنکھیں بند نہیں، کھولنے پر مجبور ہوں گے۔

دریا تو ہر سال بہتا ہے،
سوال مگر یہ ہے ہم کب اپنی آنکھوں کے بند دروازے کھولیں گے.
پانی تو چیخ رہا ہے، لیکن ہماری بےحسی کی چپ کب ٹوٹے گی.
یہ سانحے تبھی رکیں گے، جب ہم صرف افسوس نہیں ذمہ داری محسوس کرنا سیکھیں گے۔

Comments (0)
Add Comment