ایران نے پُرامن مقاصد اور توانائی کی ضروریات کے لیے یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔یہ اعلان بار بار کرنے کا ایک مقصد دنیا کو یہ باورکرانابھی مقصود ہے کہ دباو ‘ دھمکیوں یا ڈرا دھمکا کر ایران کو پرامن مقاصد کیلیے یورینیم کی افزودگی سے روکا نہیں جاسکتا۔
ایرانی خبر رساں ادارے ’انتخاب‘ کے مطابق ایران کے نائب وزیر خارجہ مجید تخت روانچی نے اعلان کیا ہے کہ تہران اقوامِ متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کا پابند رکن بنا رہے گا۔
مجید تخت روانچی نے کہا کہ ایران، این پی ٹی کے دائرہ کار میں پرامن مقاصد اور توانائی کی ضروریات کے لیے یورینیم کی افزودگی جاری رکھے گا۔
امریکا اور اسرائیل نے ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے، جس کی ایران بارہا تردید کر چکا ہے۔
اتوار کے روز امریکا نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے فوجی اور جوہری مراکز پر بمباری کی، جب کہ اسی دوران ایرانی سفارت کار امریکا اور یورپی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے۔
مجید تخت روانچی نے کہا کہ جب ایران پر حملے ہو رہے ہوں تو مذاکرات جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، انہوں نے کہا کہ ہم صرف برائے نام مذاکرات نہیں کرتے۔
یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے یہ حملے اتوار کی صبح ایران کے شمالی، وسطی اور مرکزی علاقوں میں 3 اہم جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے تھے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے نام لکھے گئے خط میں امریکی حملے کے ممکنہ تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران پرحملہ ایک ایسے ملک نے کیا جو خود جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے۔
ایرانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور ان کے ممکنہ تباہ کن نتائج سے خبردار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بلااشتعال اور غیرقانونی حملہ ہے، جو دنیا کو ’ہولناک نتائج‘ سے دوچار کر سکتا ہے جن میں عام شہریوں کی بڑے پیمانے پر اموات، طویل مدتی ماحولیاتی تباہی وغیر شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی ترکیہ میں او آئی سی اجلاس میں شرکت کے بعد روس پہنچ گئے ہیں جہاں وہ آج صدر پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔
دریں اثنا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ایرانی مندوب امیر سعید ایروانی نے امریکی حملے کا بھرپور جواب دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جواب کے لیے وقت اور نوعیت کا فیصلہ ایرانی افواج کریں گی۔
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں ایرانی مندوب کا کہنا تھا کہ ایران پر حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اپنے ملک کے خلاف جارحیت کی مذمت کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو اپنی خود مختاری کے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے اور ان حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا جب کہ ایران پر حملوں کے جواب کا فیصلہ، نوعیت اور وقت کا تعین اس کی افواج کریں گی
ادھر پاکستان نے بھی امریکی و اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی جسکی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی ۔
بہت سے مسلم ممالک اور گلوبل ساؤتھ میں بہت سی اقوام کی طرح پاکستان بھی سمجھتا ہے کہ یہ تنازع دراصل ایک ایسے مسلم ملک کو سزا دینے کے بارے میں ہے جو امریکی طاقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے جسے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا تھا لیکن جب طاقتور سلطنت نافرمان قوم کو ’سزا‘ دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو ان حقائق سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوہرا معیار اس وقت واضح ہوتا ہے جب جوہری ہتھیاروں سے لیس اسرائیل ایک اور ملک پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کا الزام لگاتا ہے۔
اگر دنیا میں کوئی ایسی ریاست ہے جس کے بارے میں عالمی برادری کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے تو وہ اسرائیل ہے جس نے غزہ میں نسل کشی کی ہے اور جو اپنے تقریباً تمام ہمسایوں کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہے۔ لیکن مغربی بلاک میں منافقت جاری ہے جہاں وہ ایران پر تنقید کرتے ہیں جبکہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ درحقیقت برطانیہ کی طرح انہوں نے بھی ایران پر امریکی حملوں کو پردے کے پیچھے سراہا۔
یہ پوری عالمی برادری کے لیے سنگین خطرے کا لمحہ ہے۔ تمام نظریں اس بات پر ہیں کہ ایران کب اور کیسے جوابی کارروائی کرتا ہے۔ ایرانی مجلس نے آبنائے ہرمز بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
معاملہ بڑھا تو پورا خطہ اسکی لپیٹ میں آسکتا ہے جو بڑی عالمی جنگ کا روپ بھی دھار سکتا ہے۔ دفاعی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی مداخلت سے کسی بڑے تصادم کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔