بچے سوال تو کرتے ہیں !!

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

گذشتہ روز مجھے اپنے نواسے  حسن عبداللہ کے ساتھ  بہاولپور سے لودھراں جانا پڑا ۔یہ سات سالہ بچہ  بیکن ہاوس اسکول سسٹم میں ابھی تیسری جماعت کا طالب علم ہے ۔دوسرے ذہین بچوں کی طرح اس کی بھی عادت ہے کہ یہ سارۓ راستے میں لگے سائن بوڑڈ پڑھتا  اور مجھے عبارت پڑھ کر بتاتا بھی جاتا ہے ۔جب کوئی بات سمجھ نہ آۓ تو مجھ سے سوال بھی کرتا ہے ۔جن میں سے بعض سوال ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا جواب دینا مجھ سے نہیں بن پاتا  یا پھر جواب دینے کا حوصلہ نہیں پڑتا کیونکہ وہ میرا جواب سن کر مزید  کوئی ایسا  ہی سوال  اور کر دیتا ہے ۔جونہی ہم دریاستلج  کا پل عبور کرنے لگے تو سامنے ایک سائن بورڈ لگا نظر آیا جس پر لکھا ہے کہ “دریا میں مچھلی پکڑنا اور کشتی رانی منع ہے “بچے نے پڑھا تو سوال کیا کہ ابو جی جب دریا میں پانی ہی نہیں ہے تو کشتی کیسے چلائی جا سکتی ہے اور مچھلی  کہاں سے اور کیسے پکڑی جا سکتی ہے ؟ دریا کے ریت میں  نہ تو کشتی  چل سکتی ہے اور نہ ہی ریت میں مچھلی ہوتی ہے جسے پکڑا جاسکے ؟ تو یہ سائن بورڈ کیوں لگایا ہوا ہے ؟ میں نے اسے بتایا کہ اس دریا میں ہمیشہ ریت نہیں اڑتی ہے یہاں کبھی کبھار پانی آبھی جاتا ہے ۔اس لیے یہ لکھ کر لگایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو نقصان نہ ہو تو وہ کہنے لگا کہ ابوجی ! اس دریا میں پانی کبھی کبھار کیوں آتا ہے دریا تو ہمیشہ چلتے رہتے ہیں ؟ میں نے اسے بتایا کہ اس دریا میں سدا سے ریت نہیں اڑتی تھی میرے بچپن میں دریا میں بڑا پانی ہوا کرتا تھا  ۔کئی مرتبہ تو اس دریا میں سیلاب آنے سے بہاولپور شہر کو  سیلاب کا خطرہ ہو جاتا تھا ۔پرانے زمانے میں جب ٹرین  نہیں ہوتی تھی تو لوگ پانی کے راستے  کشتیوں اور بحری جہازوں میں سفر کرتے تھے  اور اسی دریاۓ ستلج میں بحری جہاز اور کشتیاں چلا کرتی تھیں جو کراچی سے لاہور تک جاتیں تھیں ۔بچے کو میری بات سمجھ نہ آئی یا پھر یقین نہ آیا کہنے لگا تو پھر وہ پانی کدھر چلا گیا ہے ؟ وہ جہاز کہاں گئے ؟میں نے بتایا کہ اب ٹرین اور لاریاں اتنی ہو گئی ہیں کہ جہاز کی ضرورت نہیں رہی  البتہ  اس کا پانی ایک معاہدے کے تحت اب ہندوستان کی ملکیت ہے جب پانی ان کی ضرورت سے زیادہ ہو جاتا ہے تو کچھ پانی وہ کبھی کبھی اس دریا میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ تو کہنے لگا اچھا یہ دریا  سب کے لیے نہیں ہوتے ؟میں نے کہا ہاں بیٹا یہ دریا سب کے سانجھے نہیں ہوتے اس لیے کچھ دریاوں کے پانی پر ہندوستان اور کچھ پر پاکستان کا حق ہے کہ وہ جیسے چاہیں ان کا پانی استعمال کریں ۔ اس نے ہار مان لی اور بولا اچھا  ابو جی ! جب اس دریا میں  پانی آۓ اور کشتیاں چلنے لگیں اور لوگ مچھلیاں پکڑ رہے ہوں تو بھی دکھانا  ؟ مجھے اس کے چہرے کے تاثرات سے لگا کہ وہ میری بات سمجھ نہیں سکا شاید یہ اسکی سوچ سے بڑی بات تھی اس لیے وہ تو چپ ہو گیا مگر میرے ذہن میں دریاۓ ستلج کی ایک فلم سی چلنے لگی ۔بچے سوال تو کرتے ہیں ؟ میں اسے کیسے بتاتا کہ یہ دریا  اگر خشک رہے تو علاقے بھر کو پانی کی ایک ایک بوند کو ترساتا ہے اور جب   کبھی دریا ستلج کی محبت جاگتی ہے تو اس کا پانی بھپرتا ہے تو   یہ کسی کے بس میں نہیں رہتا  اور پانی کو ایک نظر دیکھ کر ہماری یادیں جوان ہو جاتی ہیں  پورا علاقے اس پانی کا استقبال اس پر پھول نچھاور کرکے کرتا ہے ۔کہتے ہیں کہ   دریاوں کی زندگی پانی ہوتا ہے اور یہی پانی بےشمار انسانی  جانوں ،نباتات ،جمادات ،فصلوں ،جانوروں اور پرندوں کو زندگی فراہم کرتا ہے ۔سوکھے دریا ویرانیاں بکھیرتے ہیں ۔

میں اسے کیسے بتاتا کہ دریاۓ ستلج کا دکھ  صرف بہاولپور ہی کا دکھ نہیں ہے بلکہ اس دریاکے ساتھ ساتھ آباد بہت سے شہروں کا دکھ  ہے ۔آج اس دریا میں اڑتی ہوئی ریت اور پانی سے محروم وسیع ویرانی یہاں کے لوگوں کی محرومیوں کی وہ داستان ہے جو ایک جانب تو یہاں کی سرزمین کو خشک سالی کی جانب لے جاتی ہے تو دوسری جانب علاقہ مکینوں کے لیے پینے کی پانی کی تنگی کا باعث بن چکی ہے ۔دریا کی روانی کے باعث اسکے ساتھ ساتھ کی آبادی کے لیے پینے کا پانی نہ صرف نیچا ہوتا جارہا ہے بلکہ اپنا میٹھا پن بھی گنوا چکا ہے اور رفتہ رفتہ مضر صحت ہوتا جارہا ہے ۔اس بچے کو کیسے بتاوں کہ پہلے دریاوں کے کنارۓ ہی شہر آباد ہوتے تھے تاکہ  میٹھے پانی جیسی نعمت انکی پیاس بجھانے اور فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے ملتی رہے ۔زمینوں کی ہریالی اور انسانوں کی صحت کا تعلق ہمیشہ دریا سے ہی جڑا ہوتا تھا ۔اس دریاۓ ستلج   کے کنارۓ جو اب ریت کا صحرا بن چکا ہےکے ساتھ ساتھ ناجانے کتنے ہی بےشمار گاوں اور شہر آباد ہوۓ ۔ہزاروں میل دور تبت کی پہاڑیوں سے نکل کر اپنے بھائیوں دریاۓ راوی ،بیاس ،جہلم ،چناب اور سندھ سے مل کر یہ دریا بحر عرب کے پانیوں میں جا  گرتا  تھا ۔کبھی یہ آمد ورفت اور نقل وحمل کے لیے ایک گزرگاہ  ہوا کرتی تھی جس میں مشہور جہاز انڈس کوئین چلا کرتا تھا ۔اس بحری جہاز کی ریاست بہاولپور کے ساتھ بڑی تاریخی وابستگی رہی ہے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نواب بہاولپور کے ہمراہ    لارڈ ماونٹ بیٹن نے اس جہاز میں سکھر تک سفر کیا تھا ۔اس تاریخی جہاز  کا ڈھانچہ آج بھی کوٹ مٹھن کے قریب موجود ہے ۔جہاں جہاں سے اس کا پانی گزرتا تھا اپنے ساتھ خوشحالی اور رزق کی فروانی کا باعث بنتا تھا ۔اس سے نکلنے والی ہزاروں میل لمبی نہریں اس کے پانی کی برکات کو دور دور تک پہنچا دیتی تھیں۔پھر یہ دکھ صرف اسی دریا کا نہیں بلکہ اس جیسے دو اور دریا  روای اور بیاس بھی اپنے وجود گنوا چکے ہیں ۔کبھی یہ تینوں دریا بھائیوں کی طرح پنجند کے مقام پر گلے ملتے  چناب و جہلم کا حصہ بن جاتے اور پھر ایک دوسرے ملکر  پاکستان کے سب سے بڑے  اور بوڑھے دریا سندھ کی گود میں بیٹھ جاتے تھے جو انہیں لے کر سندھ کے میدانوں سے گزر کر بحر عرب  کے سمندر تک لے جاتا تھا ۔پاکستان کو استحکام بخشنے والی ریاست بہاولپور جو مون سون ریجن کی حدود میں نہیں ہے اس کی زرعی ترقی کا راز یہی ستلج دریا اور اس کا پانی ہوا کرتا تھا ۔اسی دریا پر نواب بہاولپور نے بہت پہلے ستلج ویلی پراجیکٹ کا آغاز کیا اور تین بڑے ہیڈورکس بنا کر آبپاشی کے لی طویل نہریں نکالیں تھیں ۔ہیڈ سیلمانکی ،ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند اسی دریا پر انگریز حکومت سے قرض لیکر بناۓ گئے تھےجس قرض کی ادائیگی نواب آف بہاولپور نے وقت سے بہت قبل ہی کردی تھی ۔ریاست بہاولپور کے حکمرانوں نے بڑی فراخ دلی سے آباد کاروں کو سستی  زمینیں دۓ کر اس منصوبے کی کامیابی کو ممکن بنایا اسی دریا کی بدولت بہاول پور ریاست میں بڑی بڑی منڈیوں کا قیام ممکن ہوا ۔اور پھر جب سندھ طاس معاہدہ ہوا تو ستلج ،بیاس اور راوی جیسے دریاوں پر ہندوستان کا حق تسلیم کر لیا گیا  اور یہ دریا پانی سے محروم ہو گئے ۔آج کے بچے پوچھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ کیا تھا اور کیوں کیا گیا ؟تو جواب دینا بڑا مشکل ہو جاتا ہے ۔وہ پوچھتے ہیں کہ کیا پھر سے اس دریا میں مچھلیاں پکڑی جاسکیں گی ؟ کیا پھر سے اس  دریا میں کشتی رانی یا جہاز رانی ہو سکے گی ؟ اس دریا کی  داستان بارہا  سنانے  اور وجوہات بیان کرنے کے باوجود ا ن بچوں کی سمجھ میں کچھ  نہیں آتا کیونکہ بچے تو بچے ہوتے ہیں اور وہ سوال تو کرتے ہیں ۔ہاں البتہ اسے یہ ضرور بتاتا ہوں کہ  ماضی کو چھوڑو  مستقبل کی فکر کرو  کیونکہ پانی   ہماری زندگی ہے اور ہم اسے ضائع  کررہے ہیں ۔وہ دریا جو کل تک بہتے تھے آج سوکھ یا سکڑ رہے ہیں ۔وہ کنوئیں جو کبھی لبالبٔ  بھرے ہوتے تھے آج ان کے پانی کی سطح گرتی جارہی ہے ۔اگر ہم نے پانی کی قدر نہ کی  تو کل خشک سالی کے ساۓ منڈلانے لگیں گے  ۔ہم درخت کاٹ کر بادلوں کا راستہ روک رہے ہیں جو  بارش اور پانی لانے کا سبب بنتے ہیں ۔یہ وقت جاگنے کا ہے درخت لگائیں زمین کو سرسبز کریں بادلوں کو دعوت دیں کہ وہ برسیں اور ہمارے ندی نالے اوردریا   رواں دواں رہ سکیں ورنہ پانی کے بغیر زندگی کو خطرہ ہے ۔پانی کی قدر کریں ۔پانی کی ہر بوند قیمتی ہے اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں ۔پانی کا دن منانے سے نہیں بلکہ درخت لگانے  اور انہیں بچانے سے پانی مل سکتا ہے ۔ندی نالے اور دریا پھر سے رواں ہو سکتے ہیں ۔کشتیاں پھر رواں دواں ہو سکتی ہیں مچھلیاں پھر سے پکڑی جاسکتی ہیں ۔بس درخت لگاو اور ان کی حفاظت کرو ۔یہی پانی کے عالمی دن کا مقصد ہے  اور یہی وقت کی آواز ہے اور یہی ہمارۓ ملک کی ضرورت ہے ۔پانی کے غیر ذمہدارانہ استعمال سے لوگوں کو  نہ صرف روکیں بلکہ اپنے  بچوں اور نئی نسل کو درختوں کی افادیت اور اہمیت بتائیں  یاد رکھیں بچوں کو آپ کی دی ہوئی تربیت  آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے ۔

Comments (0)
Add Comment