پنجاب حکومت کا پنشن فیصلہ

راحت یا مزید تنازع صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

پنجاب حکومت نے بالآخر ایک ایسا فیصلہ کر لیا ہے جس کا انتظارتھا۔ سرکاری ملازمین کی وفات کے بعد ان کی بیوگان میں پنشن کی تقسیم ہمیشہ ایک نہایت حساس، جذباتی اور قانونی پیچیدگیوں سے بھرا ہوا معاملہ رہا ہے۔ اکثر اوقات عدالتوں میں برسوں مقدمات چلتے رہے، بیوائیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہیں، اور اس دوران وہ مالی اور ذہنی اذیت کا شکار ہوئیں۔ لیکن اب پنجاب سول سرونٹس فیملی پنشن رولز میں ترمیم کے ذریعے اس مسئلے کو بڑی حد تک حل کر دیا گیا ہے۔اس ترمیم کے مطابق اگر کسی مرحوم صوبائی سرکاری ملازم کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو پنشن ان کے درمیان مساوی تقسیم کی جائے گی۔ یہ اصول انصاف کے تقاضوں سے قریب تر ہے کیونکہ شریعت اور قانون دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر نکاح درست اور ریکارڈ پر ہے تو بیوہ کے حقوق کسی طور کم نہیں ہو سکتے۔ اس سے پہلے عمومی طور پر یہ دیکھا جاتا تھا کہ اکثر پہلی بیوی ہی تمام پنشن حاصل کر لیتی تھی یا اس کی اولاد قانونی لڑائی لڑ کر باقی بیویوں کو ان کے حق سے محروم کر دیتی تھی۔ اب یہ ابہام ختم ہو گیا ہے اور ہر بیوہ کو مساوی حق ملے گا۔تاہم نوٹیفیکیشن میں ایک اہم شق یہ بھی شامل کی گئی ہے کہ اگر بیوہ دوسری شادی کر لے تو وہ پنشن کی مزید حقدار نہیں رہے گی۔ یہ شق یقینا بحث و مباحثہ کا باعث بنے گی۔ ایک طرف حکومت کا موقف یہ ہے کہ پنشن بنیادی طور پر متوفی ملازم کی بیوہ کے کفالت کے لیے دی جاتی ہے، اور جب وہ کسی دوسرے نکاح میں داخل ہو جائے تو اس کا مالی کفیل نیا شوہر ہوتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ اعتراض بھی سامنے آتا ہے کہ اس شق کے ذریعے بیوہ پر ایک غیر ضروری دباؤ ڈالا گیا ہے۔ اسے مجبوراً معاشرتی دباؤ یا تنہائی کی زندگی گزارنی پڑے گی تاکہ پنشن کی سہولت سے محروم نہ ہو۔ اس طرح کا قانون خواتین کے ازدواجی حقوق پر براہ راست اثر انداز ہو سکتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیوگی کی حالت میں عورت کو پہلے ہی بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رشتہ داروں اور سسرالی دباؤ کے ساتھ ساتھ مالی پریشانیوں نے اس کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہوتا ہے۔ اگر حکومت بیوہ کو یہ سہولت دے رہی ہے تو پھر اس سہولت کو دوسری شادی کی بنیاد پر ختم کرنا انصاف کے ترازو کو یکطرفہ جھکانا ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں عدالتوں میں چیلنج ہو سکتا ہے اور ممکن ہے عدلیہ اس پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایک نیا اصول طے کرے۔اب آتے ہیں اس نوٹیفیکیشن کے ایک اور پہلو کی جانب، جو حقیقت میں خوش آئند ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے فیملی پنشن کے حوالے سے ایک ترمیم کی تھی جس کے مطابق بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن دی جائے گی اور اس کے بعد یہ سہولت ختم ہو جائے گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف ظالمانہ تھا بلکہ خواتین کے ساتھ بدترین ناانصافی بھی سمجھا گیا۔ ایک ایسی بیوہ جس کے شوہر نے اپنی پوری زندگی سرکاری ملازمت میں گزار دی، اس کی بیوی کو صرف 10 سال کے بعد بے یارومددگار چھوڑ دینا انسانی ہمدردی کے بھی خلاف تھا۔ اس پالیسی پر نہ صرف پنشنرز کی تنظیموں نے احتجاج کیا بلکہ مختلف قانونی و سماجی حلقوں نے بھی سخت تنقید کی۔اب پنجاب حکومت نے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے ایک درست سمت اختیار کی ہے اور تاحیات پنشن کو بحال کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے ہزاروں خواتین کو معاشی تحفظ حاصل ہو گا۔ یہ قدم حکومت پنجاب کا ایک مثبت اور انسان دوست فیصلہ ہے جو سماجی انصاف کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔تاہم اس فیصلے کے عملی نفاذ میں بیوروکریسی کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوگا۔ پاکستان میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ کاغذی فیصلے اپنی جگہ موجود رہتے ہیں لیکن عملی سطح پر بیواؤں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے برسوں فائلوں اور عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ اگر محکمہ خزانہ اور متعلقہ ادارے شفافیت اور تیزی کے ساتھ ان قوانین پر عمل درآمد کریں تو بے شمار خاندان فوری ریلیف حاصل کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ بھی ایک محض نوٹیفیکیشن بن کر رہ جائے گا۔یہاں ایک اور پہلو بھی زیرِ غور آتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پنشن کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ملازمین کی زندگی میں ہی ”فیملی ڈیٹا” کو باقاعدہ طور پر محفوظ کرے۔ اکثر اوقات دوسری شادی یا دوسری بیوی کے بارے میں ریکارڈ ہی موجود نہیں ہوتا جس کی وجہ سے بعد ازاں مقدمات چلتے ہیں۔ اگر ملازم کے دورانِ ملازمت ہی اس کے اہلِ خانہ کا مکمل ریکارڈ اپ ڈیٹ اور تصدیق شدہ رکھا جائے تو وفات کے بعد کسی تنازع کی گنجائش ہی نہیں رہے گی۔اس نوٹیفیکیشن کے اثرات براہِ راست عدالتوں پر بھی پڑیں گے۔ بیواؤں کے درمیان پنشن کے مقدمات کی ایک بڑی تعداد زیرِ سماعت رہتی ہے۔ اگر اس ترمیم پر درست طور پر عمل درآمد کیا گیا تو عدالتوں کا بوجھ بھی کم ہوگا اور خواتین کو انصاف کے لیے برسوں انتظار بھی نہیں کرنا پڑے گا۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب حکومت کا یہ قدم بلاشبہ خوش آئند اور تاریخی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ بیوہ کی دوسری شادی پر پنشن سے محرومی والی شق مستقبل میں بڑے تنازع کا باعث بنے گی۔ اس شق پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے تاکہ یہ فیصلہ عورت کے بنیادی حقِ ازدواج کے منافی نہ ہو۔ حکومت اگر واقعی خواتین کی فلاح چاہتی ہے تو اسے قوانین میں ایسے نکات شامل نہیں کرنے چاہییں جو عورت کو اپنی ذاتی زندگی کے فیصلوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیں۔یہ فیصلہ ایک بڑی پیش رفت ہے لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ پنشن کے نظام کو مزید شفاف، آسان اور منصفانہ بنانے کے لیے مستقل اصلاحات ضروری ہیں۔ امید ہے کہ یہ ترمیم صرف کاغذی کارروائی نہیں رہے

Comments (0)
Add Comment