پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کی زد میں ہے۔ حالیہ مون سون سیزن میں 26 جون 2025ء سے اگست 2025ء تک ہونے والی بارشوں اور کلاؤڈ برسٹس نے شمالی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں بدترین سیلابی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے مطابق اس عرصے کے دوران ملک بھر میں کم از کم 700 سے زائدافراد جاں بحق اور 1 ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے صرف خیبر پختونخوا میں400 اموات رپورٹ ہوئیں۔ مجموعی طور پر پورے پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی اموات کی تعداد700 سے تجاوز کر چکی ہے اور مزید بارشوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔شدید متاثرہ علاقےخیبر پختونخوا کا ضلع بنوں اور بونیر سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بونیر میں ایک گھنٹے کے اندر 150 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی، جس نے فلش فلڈ اور لینڈ سلائیڈنگ کو جنم دیا۔ صرف اس ایک واقعے میں 207 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں لاپتہ ہوئے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب محض سائنسی اصطلاح نہیں بلکہ ایک تباہ کن حقیقت ہے، جو انسانی جانوں اور انفراسٹرکچر کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان ایسی صورتحال سے دوچار ہوا ہو۔ 2022ء کے ہولناک سیلاب میں 1760 سے زائد افراد جاں بحق اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ تاہم ہر گزرتے برس کے ساتھ بارشوں اور سیلاب کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر جولائی 2025ء میں راولپنڈی میں ایک ہی دن میں 230 ملی میٹر بارش نے شہری نظام کو مفلوج کر دیا۔ ماہرین کے مطابق موجودہ عالمی درجہ حرارت، جو صنعتی دور سے قبل تقریباً3 .1 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے، بارشوں کو 22 فیصد زیادہ شدید بنا چکا ہے، جبکہ بعض کلائمٹ ماڈلز کے مطابق شدت میں 40 سے 80 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔بارشوں اور کلاؤڈ برسٹس یعنی( اچانک اور مختصر وقت میں غیر معمولی بارش) اب شمالی پاکستان میں تباہی کی نئی وجہ بن رہی ہیں۔ چند منٹوں میں کئی سینٹی میٹر بارش ہونے سے پہاڑی علاقوں میں پانی کے بہاؤ جان لیوا سیلاب میں بدل جاتے ہیں۔ بونیر اور بنوں میں حالیہ بارشوں نے یہی صورتحال پیدا کی اور کئی شہر و دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ان جانی نقصانات کے ساتھ ساتھ مالی نقصانات بھی نہایت سنگین ہیں۔ صرف حالیہ 2025ء کے سیلاب میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہزاروں مکانات تباہ ہوئے، لاکھوں ایکڑ زرعی زمین زیرِ آب آگئی اور کھڑی فصلیں ضائع ہو گئیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں جنہیں فوری ریلیف، عارضی رہائش اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سےسیلاب زدہ علاقوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق معیشت کو کم از کم 4 سے 5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جب کہ 2022ء کے سیلاب سے یہ نقصان تقریباً 30 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ انفراسٹرکچر کی تباہی، سڑکوں، پلوں، اسکولوں اور اسپتالوں کو پہنچنے والا نقصان الگ ہے جس نے بحالی کے اخراجات کئی گنا بڑھا دیے ہیں۔ زرعی شعبے میں کپاس، گندم اور مکئی جیسی اہم فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے غذائی عدم تحفظ اور مہنگائی کے مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ ہر گزرتے سال بارشوں اور سیلابوں کی شدت پچھلے برسوں سے کہیں زیادہ بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق برفانی تودوں کے تیزی سے پگھلنے، بے ہنگم آبادیوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے ماحولیاتی نظام کو غیر متوازن کر دیا ہےجس کا نتیجہ بار بار آنے والے تباہ کن سیلابوں کی صورت میں نکل رہا ہے۔اسلامی نقطۂ نظر سے بارش اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم رحمت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:یعنی وہی اللہ ہے جو بارش نازل کرتا ہے تاکہ مایوسی کے بعد لوگوں پر اپنی رحمت کو پھیلائے۔ لیکن جب انسان زمین پر ناانصافی اور فساد پھیلاتا ہے تو یہی رحمت عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ قرآن میں یہ وارننگ دی گئی ہے۔(الشوریٰ: 28) قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا یعنی خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا ہے، انسانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے۔(الروم: 41)ہمارے معاشرتی رویے بھی اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں۔ درختوں کی کٹائی، پانی کے وسائل کا زیاں، کاربن کے اخراج میں اضافہ اور قدرتی توازن سے انحراف ہمیں بار بار تنبیہ کر رہا ہے۔ حدیث نبوی ﷺ میں آتا ہے: یعنی قیامت آ جائے اور کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو وہ اسے لگا دے۔ (مسند احمد) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے ماحول کی حفاظت کو کس قدر اہمیت دی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں اسلامی تعلیمات اور جدید سائنسی اقدامات کو یکجا کر کے ماحول کے تحفظ کی طرف بڑھنا ہوگا۔ جنگلات کا تحفظ، متبادل توانائی کے ذرائع کا فروغ، پانی کے منصفانہ استعمال اور شفاف حکمتِ عملی کے ذریعے قدرتی آفات کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔موجودہ صورتحال یہ واضح کرتی ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے کے لیے ہنگامی اور دیرپا اقدامات کرنا ہوں گے۔ دریاؤں اور ندی نالوں مٹی ،ریت اور سلٹ کی وجہ سے پانی کی گنجائش کم ہو جاتی ہے، لہٰذا باقاعدگی سے ان کی ڈریجنگ (Dredging) کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو بہتر بنایا جائے۔ اگر یہ عمل منظم طریقے سے کیا جائے تو 20 سے 30 فیصد تک سیلابی خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے” ارلی وارننگ سسٹمز “کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپ ڈیٹ کیا جائے یعنی سیٹلائٹ ڈیٹا، موبائل الرٹس، کمیونٹی ریڈیو اور مقامی مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر استعمال کر کے مقامی آبادیوں کو سیلاب کی بروقت اطلاع دی جا سکتی ہے تاکہ لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ہر ضلع میں “ا یمرجنسی لوکل ڈیزاسٹر ریسپانس یونٹ” قائم کیے جائیں جن میں کشتیوں، ریسکیو کٹس اور فوری طبی امداد کا انتظام موجود ہو۔موجودہ دور میں میڈیا کی اہمیت مسلمہ ہے عوام کو