مہنگائی مافیا اور رمضان المبارک

تحریر:راؤ غلام مصطفی Email:rgmustafa555@yahoo.com

صوبہ پنجاب میں ذخیرہ اندوزی کے انسداد کے لئے ایکٹ موجود ہے۔جس کے تحت ذخیرہ اندازوں کو تین سے پانچ سال تک سزا دی جا سکتی ہے اور اس ایکٹ کے تحت تاجران و کاروباری حضرات اجناس کے سٹاک کی تفصیل دینے کے بھی پابند ہیں۔ذخیرہ اندوزی ناقابل ضمانت جرم ہے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے انسداد کے لئے مروجہ قوانین پر عمل نہ ہونا مافیاز کو تقویت دینے کا باعث ہے۔ مہنگائی کا گراف ایک تسلسل کے ساتھ بلند ہو رہا ہے۔قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور مافیا کھل کر کھیل رہے ہیں اور عام آدمی اس مافیا کے ہاتھوں لٹ رہا ہے۔مہنگائی صرف پنجاب تک محدود نہیں ہے پورے ملک میں حکومت کی جانب سے مہنگائی کی روک تھام کے لئے مناسب عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔ملک میں چالیس فیصد لوگ خط غربت کی لکیر نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں. روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث غربت اور مہنگائی میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ایسے الارمنگ حالات میں عام آدمی کی معاشی حالت کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث قوت خرید جواب دیتی جا رہی ہے۔مروجہ قوانین کا عملی نفاذ ہی عوام کو خود ساختہ مہنگائی کے بھنور سے نکال سکتا ہے جس کے لئے حکومت کی جانب سے مئوثر منصوبہ بندی نہیں دکھائی دے رہی۔غریب اور متوسط طبقہ مہنگائی کے آسیب میں جکڑتا جا رہا ہے۔ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے انسداد کے لئے دو ایکٹ اور کئی ضمنی قوانین موجود ہیں۔لیکن قوانین کا عملی نفاذ دیکھنے میں نہیں آیا یہی وجہ ہے یہ مافیا آئے روز عام آدمی کی جیب پر نقب لگا کر اسے معاشی ناہمواری کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ملکی کرنسی کی ڈی ویلیو ایشن اور پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے پڑنے والے اثرات بھی براہ راست عام آدمی کی معاشی حالت پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ملک میں امتناع ناجائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی ایکٹ مجریہ 1977ء اور فوڈ سٹی کنٹرول ایکٹ 1958ءکے تحت سرکاری محکموں کو مارکیٹ میں روزمرہ ضروری اشیاء کی مناسب رسد کی فراہمی،قیمتوں پر کنٹرول،ذخیرہ کی گئی اشیاء کی برآمدگی اور اس بارے ذمہ داروں کو سزا دلوانے کے وسیع اختیارات موجود ہیں۔المیہ ہے مروجہ قوانین چھوٹے دکانداروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ایسے مل مالکان،ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں جنہیں سزائیں ہوئیں۔مروجہ ایکٹ کا سیکشن 7حکومتی محکموں کو ذخیرہ کی گئی چینی،آٹا،دالیں دیگر روزمرہ کی ضروری اشیاء ضرورت کے مطابق مارکیٹ میں لانے کی اجازت دیتا ہے۔سیکشن 8 کے تحت حکومت قیمتوں کے تعین کا جائزہ لے سکتی ہے اور سیکشن 11 کے تحت مرتکب ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سمری ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔لیکن مروجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے،کرپشن اور کنٹرولر آف پرائسز کے عہدے ذخیرہ اندوزی اور منافع خور مافیا کے محافظ بن گئے ہیں۔مہنگائی مسئلہ جب تک رہے گا جب تک مروجہ قوانین کو عملی طور پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔حکومت کو چاہئیے کہ سول سوسائٹی کے ارکان،وکلاء، صحافیوں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیا کی نشاندہی کریں۔حکومت کو چاہیئے رمضان المبارک میں مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لئے مئوثر اقدامات کرے۔تاکہ خود ساختہ مہنگائی پر پر قابو پایا جا سکے۔ مروجہ قوانین پر عمل درآمد ہو جائے تو جہاں مہنگائی میں کمی اور کنٹرول ممکن ہو گا وہیں عوام کو تھوڑا ریلیف بھی مل جائے گا۔رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کی شرح میں مصنوعی اضافہ کر دیا جاتا یے اور عوام اس بے لگام مافیا کے ہاتھوں لٹتے رہتے ہیں۔رمضان المبارک کے تقدس کا بھی یہ مافیا احترام نہیں کرتا قیمتوں میں اعتدال نہ ہونے کے باعث عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا۔رمضان المبارک میں ہر خاص و عام کی کوشش ہوتی ہے افطار کے وقت دستر خوان کشادہ ہو لیکن غریب آدمی 7 سو روپے کلو مرغی کا گوشت نہیں خرید سکتا،پھل اتنے مہنگے کہ قیمت سن کر عام آدمی کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔مہنگائی کا ماتم اپنی جگہ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے عام آدمی اور متوسط طبقہ کا بجٹ تلپٹ کر کے رکھ دیا یے۔
خریداری کرتے ہوئے دس بار سوچنا پڑتا ہے کہ کیا خریدیں کیا چھوڑ دیں۔عام آدمی مشکل سے اپنے گھر کی بسر اوقات کرتا ہے۔ مروجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اس بات کا غماز ہے حکومت اس مافیا کے سامنے بے بس ہے۔ مخصوص مافیا رمضان شریف کی آمد سے پہلے اور تاجر حضرات طلب و رسد میں عدم توازن کا بہانہ بنا کر خود ساختہ مہنگائی کرتے ہیں۔ مہنگائی کے طوفان کو روکنے کے لیے حکومت کے پاس صرف ایک ہی طریقہ ہوتا ہے یوٹیلٹی سٹوروں میں جو وفاقی حکومت کے زیر انتظام کام کرتے ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں سبسڈی دے دیتی ہے۔ جبکہ ان یوٹیلٹی سٹوروں میں اگرچہ اشیاء کا معیار دیکھا جائے تو انتہائی ناقص چیزیں جن کی قیمت مارکیٹ سے پہلے ہی سے کم ہوتی ہے۔ عوام کے لیے مہیا کر دی جاتی ہیں۔ پہلے ہی یوٹیلٹی سٹوروں کی قیمتوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بہت سی اشیاء کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ کر دیا ہے۔ اس طرح عوام کو دھوکا میں رکھا جاتا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کے مرتکب افراد کو نہ بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں اور نہ ہی سزائیں دی جاتی ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم ہے اور نہ ہی کوئی میکانزم ہے۔اور یہی وجہ ہے مہنگائی کے خلاف کئے گئےحکومتی اقدامات غیر مئوثر ہیں۔اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور معیاری اشیاء کی فراہمی یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے۔آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے عام آدمی کو مزید معاشی گراوٹ کا شکار کر دیا ہے ۔ مہنگائی کے طوفان کو روکنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے رحمت، مغفرت کے بابرکت مہینے شروع ہو چکا ہے۔ لیکن وطن عزیز میں ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور مافیا غریب آدمی کو لوٹنے کے لئے کمر

Comments (0)
Add Comment