پنجاب یونیورسٹی کی ایلو مینائی کی تقریب منعقد کی گئی جہاں پر اس عظیم تعلیمی ادارے سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر محمّد علی شاہ اور پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک آرگنائزیشن کے صدر ڈاکٹر امجد مگسی کی یہ بہت اچھی کاوش تھی، انتظامیہ متحرک ہو تو تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد ان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر حسین سجاد نے میرے توسط سے پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کو ہاف ملین ڈالر کی سافٹ ویئر مصنوعات تحفہ کے طور پر دی ہے۔
اس نوعیت کی تقریبات کو مستقل بنیادوں پر منعقد ہوتے رہنا چاہیے تا کہ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع میسر آتا رہے۔ اس تقریب میں شریک ایک دوست سے گفتگو ہونے لگی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے بر سر اقتدار آنے سے دنیا کو کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت حقیقی معنوں میں صورت حال یہ ہے کہ دنیا ٹرمپ کے بیانات پر دم بخود ہے کہ صدر امریکہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی دوسری جنگ عظیم کے بعد اختیار کی گئی خارجہ حکمت عملی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لائی جا رہی ہے۔
امریکہ نے اس سے قبل چاہے دنیا بھر میں کہی بھی حملہ کیا ہو مگر اس نے بزور شمشیر یا معاشی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سرحدوں میں توسیع نہیں کی تھی مگر اب کینیڈا سے لے کر پاناما، گرین لینڈ اور غزہ تک کے حوالے سے بیانات یہ واضح کر رہے ہیں کہ امریکہ میں ایسی پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے کہ جس میں بین الاقوامی سرحدوں کے تقدس کو کوئی اہمیت زبانی کلامی بھی حاصل نہیں ہوگی۔ بڑی طاقتوں میں جب روس نے یوکرائن پر حملہ کیا اور اس کا تسلیم شدہ علاقے پر قابض ہو گئے تو یہ سرحدوں کی توسیع کے حوالے سے ایک غیر معمولی صورت حال تھی مگر روس کے متعلق مضبوط تصور یہ ہے کہ وہاں پر صدر پیوٹن در حقیقت ایک آمر ہے اس لئے ان سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے مگر امریکہ تو ایک طے شدہ جمہوری ملک ہے اور اس کی کم از کم اپنے ملک میں جمہوری اقدار کی پاسداری کرنا بہت بڑی اس کے لئے طاقت ہے مگر اب اس کا رویہ اس کے بر خلاف ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ یوکرائن کو میدان جنگ میں روس کے سپرد کرنے پر آمادہ نظر آ رہا ہے جو کہ امریکی ساکھ کو دنیا میں بہت زک پہنچا دیں گا۔ یورپی اقوام اس صورت حال سے بہت پریشان ہیں۔ ابھی جب امن ڈائلاگ دو ہزار پچیس ہو رہا تھا تو یورپی ممالک کے وفود میں شریک فوجی افسران سے گفتگو میں صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس وقت امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے ایک بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہیں اور یورپ کوئی حکمت عملی مرتب کرنے میں صرف اس کا انتظار کر رہا ہے کہ جرمنی کے انتخابات میں کیا نتائج برآمد ہونگے۔
اب جب کہ جرمنی کے عبوری انتخابی نتائج سامنے آ چکے ہیں اور قدآمت پسند جیت چکے ہیں جبکہ ایلون مسک کی پسندیدہ جماعت انتہائی دائیں بازو کی تارکین وطن کی مخالف اور اسلام دشمن جماعت اے ایف ڈی پہلی بار دوسرے نمبر پر آنے کے باوجود حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیوں کہ دیگر کامیاب جماعتوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ وہ اے ایف ڈی کے نظریات کی وجہ سے اس کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم نہیں کریں گے تو اس صورت حال میں جب ایلون مسک کی پسندیدہ جماعت اقتدار کے ایوان میں نہیں ہوگی تو دیکھنا یہ ہے کہ جرمنی کی نئی حکومت یوکرائن معاملہ پر دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ملکر کیا حکمت عملی ترتیب دیتی ہے اور یورپ کے لئے روسی خطرے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
جرمنی کی پاکستان کے لئے ویسے بھی بہت اہمیت ہے کیوں کہ اس کی وزیر خارجہ نے تو کشمیر کے حوالے سے انڈیا کے موقف کے بر خلاف اقوام متحدہ کے کردار تک کی بات کی تھی۔ ابھی چند روز قبل کچھ یورپی سفارت کار لاہور میں میرے سے ملاقات کرنے کے لئے آئے۔ ان سے یورپ کی صورت حال اور جرمن انتخابات کے یورپی سیاست اور امریکہ سے تعلقات پر اثرات پر گفتگو ہوئی۔ یورپ میں یہ سوچ موجود ہیں کہ یورپ ہر معاملہ پر امریکہ کی متابعت کر کے بہت بار اپنا نقصان کر بیٹھا ہے اور اس کے ممالک کی خارجہ پالیسی امریکی اثر سے آزاد ہونی چاہیے۔
یورپ میں خاص طور پر جرمنی تو ایسا ملک ہے کہ وہ پاکستان سے سماجی تعلقات کی مزید مضبوطی کا خواہاں ہے۔ اسی طرح پاکستان کی ہاکی ٹیم جو یورپ میں پاکستان کا مثبت تشخص تھی کو اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کے لئے پچیس پاکستانی ہاکی کے کھلاڑیوں کو ہالینڈ اپنے ملک لے کر جا رہے ہیں اور یہ کھلاڑی وہاں مقامی افراد کے گھروں میں رہیں گے، وہاں کے ہاکی کلبز میں کھیلیں گے۔ لیکن ہمیں دیکھنا صرف یہ چاہیے کہ کہی اس میں بھی سفارش اہلیت پر غالب نہ آ جائے اور پاکستان ہاکی کی بحالی کی یہ دوستانہ کوشش بھی سفارش کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔
اس بات کا پی ایچ ایف کو خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اہل کھلاڑی ہی اس موقع کا فائدہ اٹھائے، ویسے ہاکی کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ کسی طاقت ور ادارے کے سربراہ کو اس کا صدر بنایا جائے تا کہ وہ قومی کھیل کی بحالی کے لئے مضبوطی سے کاوشیں کر سکیں۔ فی زمانہ کھیلوں کا بین الاقوامی روابط میں بہت اہم کردار ہے۔ ابھی چند دن قبل جب پی آئی ڈی کے شفقت عباس نے بنگلہ دیش کے صحافی حضرات سے ملاقات کروائی تو ان۔ کو بھی یہ کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے تعلیمی وظائف کے بڑے پیمانے پر اجرا اور کھیلوں کے باہمی مقابلوں کو بڑھانا چاہیے۔
ابھی گزشتہ