ورکرز کو عزت دو

کالم نگار: محمد شہزاد بھٹی

گزشتہ ہفتے میری پاکستان مسلم لیگ ن کے دو درینہ ورکرز سے فون پر بات ہوئی جن میں ایک ہیں محمد عباس بھٹی صاحب جن کا تعلق بہاولنگر سے ہے اور ایک ہیں میڈم ملیحہ حسین صاحبہ جن کا تعلق راولپنڈی سے ہے دونوں

سے جب پارٹی معاملات پر بات ہوئی تو قیادت سے نالاں نظر آئے دونوں کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ ہماری قیادت نظریاتی ورکرز کو عزت نہیں دیتی۔ اس لیے میں نے آج سوچا کیوں نہ آج ورکرز کو عزت دو کے موضوع پر ہی بات کر لی جائے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں آ جائے تو ورکرز کو بالکل نظر انداز کر دیتی ہے ان کو جو عزت دینی چاہیے وہ نہیں دیتی۔ آخر کیوں؟ میری نظر میں ورکرز دو قسم کے ہوتے ہیں نظریاتی ورکرز اور ذاتی ورکرز۔ سب سے پہلے ہم بات کر لیتے ہیں نظریاتی ورکرز کی، یاد رکھیں نظریاتی ورکرز کسی بھی سیاسی جماعت میں ریڑھ کی ہڈی یا روح کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ملک پاکستان میں جو سلوک کسی بھی سیاسی جماعت کے نظریاتی ورکرز کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ان کی اہمیت صرف تب ہوتی ہے جب کوئی جماعت اپوزیشن میں ہو اور انہیں جھوٹے سچے مقدمات کا سامنا ہو تب پولیس ان کے پیچھے پیچھے ہوتی ہے یا کہیں دوسرے شہر میں کوئی اپوزیشن رہنما میٹنگ یا جلسے جلوس کے لیے جائے تو وہاں کی پولیس اس کے پہنچنے سے پہلے اسے پکڑنے کے لیے منتظر کھڑی ہوتی ہے تو پھر ایسے مشکل حالات میں سیاسی جماعتوں کو ورکرز یاد آتے ہیں اور پھر انہیں بطور ڈھال استعمال کیا جاتا ہے یہی ورکرز جلسے جلوسوں احتجاجی ریلیوں میں دھکے، آنسو گیس کے شیل کھاتے ہیں، لاٹھی اور گولی کھاتے ہیں، جیل جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اور گراؤنڈ لیول پر یہی ورکرز اپنی سیاسی جماعت کی ہر جائز ناجائز پالیسی کو ڈیفینڈ کرتے ہیں لیکن جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آ جائے تو پھر وہ ورکرز کو گھاس نہیں ڈالتی۔ جیسے آج پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے پولیس کیا تمام سرکاری مشینری ہی ان

کے استقبال اور پروٹوکول کے لیے موجود ہے، آج ان کو پتہ ہے جہاں کوئی وزیر، مشیر، وزیراعلی، وزیراعظم یا صدر جائے گا وہاں سرکاری مشینری استقبال اور پروٹوکول کے لیے موجود ہو گی اس لیے ورکرز کی کیا ضرورت ہے لیکن جب یہ اپوزیشن میں ہوں، مشکل میں ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ پولیس انہیں پکڑنے کے لیے منتظر کھڑی ہے تو پھر ورکرز یاد آتے ہیں اور جب حکومت ہو تو ورکرز کو اہم پارٹی پروگراموں میں نہیں بلایا جاتا اس طرح نظریاتی ورکرز کو نظر انداز کر کے ان کا خوب استحصال کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ایم پی اے یا ایم این اے کے ساتھ وابستہ ایسے افراد جن کے ذاتی یا سیاسی مفادات صرف اسی سیاسی لیڈر ایم پی اے یا ایم این اے کے ساتھ وابستہ ہوں تو انہیں ذاتی ورکرز کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ذاتی ورکرز کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ہر ایم پی اے اور ایم این اے اپنے ذاتی ورکرز کو ہی عزت دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان کا جینا مرنا اس کے ساتھ ہے وہ چاہے جس سیاسی جماعت میں مرضی چلا جائے وہ اس کے ساتھ ہی رہیں گے، یاد رہے ذاتی ورکرز کسی مخصوص سیاسی جماعت کا نعرہ نہیں لگاتے یہ اپنے ایم پی اے یا ایم این اے کے ہی گن گاتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ایم پی اے اور ایم این اے اپنے ذاتی ورکرز کو اہمیت دیتے ہیں مگر نظریاتی ورکرز کو نہیں کیونکہ ایم پی اے اور ایم این اے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ فلاں سیاسی جماعت یا لیڈر کے ورکرز ہیں یہ ہمارے پکے یا ذاتی ورکرز نہیں، اگر ہم نے کل کو کوئی اور سیاسی پارٹی جوائن کی تو یہ ہمارے ساتھ نہیں ہو ہونگے بلکہ ہماری مخالفت کریں گے اس لیے بھی وہ نظریاتی ورکرز کی بجائے ذاتی ورکرز کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر اگر ہم بات کریں کہ جب کوئی بندہ اپنی سابقہ سیاسی پارٹی چھوڑ کر یا آزاد الیکشن جیت کر کسی مخصوص سیاسی جماعت کو جوائن کرنے کے لیے رابطہ کرتا ہے تو کبھی اس سیاسی جماعت کے سربراہ یا لیڈر نے یہ کہا کہ پہلے اس شہر کے میری جماعت کے تنظیموں کے عہدیدران سے میٹنگ کرو انہیں اعتماد میں لو، جواب ہے ہرگز نہیں تو یہ ہے سیاسی جماعتوں کی نظر میں نظریاتی ورکرز کی عزت۔ یوں نظریاتی ورکرز اس نئے پارٹی جوائن کرنے والے ایم پی اے یا ایم این اے کی نظروں میں ڈی گریڈ ہو جاتے ہیں کیونکہ انہی نظریاتی ورکرز نے الیکشن کمپین میں گراؤنڈ لیول پر اور سوشل میڈیا پر اپنے قائد کی محبت میں اسی ایم پی اے یا ایم این اے کی مخالفت کی ہوتی ہے جسے پارٹی بخوشی لے لیتی ہے یوں نظریاتی ورکرز کی پارٹی جوائن کرنے والے کی نظروں میں ٹک

ے کی عزت نہیں رہتی لہٰذا سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہو گی اور کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا ہو گا کہ ورکرز کی عزت پر کوئی حرف نا آئے۔ یہی پاکستان مسلم لیگ ن ماضی قریب میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو بڑے زور شور سے لگاتی رہی ہے مگر آج اپنے ہی ورکرز کو عزت دیتی نظر نہیں آتی۔ یاد رہے، وقت بدلتے دیر نہیں لگتی کہیں ایسا نہ ہو کہ مشکل وقت میں آپ کے ورکرز آپ سے نالاں ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے نظریاتی ورکرز کو اگر اس کی جماعت ہی عزت نہیں دے گی تو اور کون دے گا؟ یاد رکھیں کوئی بھی سیاسی تحریک ہو وہ انہی ورکرز کی بدولت ہی کامیاب ہوتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ورکرز کو نشان عزت بنائیں، نشان عبرت نہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Comments (0)
Add Comment