شہرقائدؒ میں حالیہ مہینوں میں ڈمپرز اور دیگر بھاری گاڑیوں کے ڈرائیورز کی مجرمانہ غفلت اورعجلت کے نتیجہ میں دلخراش حادثات اورانسانوں کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ان حادثات میں گزشتہ دو مہینوں کے دوران 100 سے زائد افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جس سے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ صورتحال شہر میں ٹریفک قوانین کے نفاذ اورسندھ کی صوبائی حکومت کی انتظامی صلاحیت اور کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔حکومت سندھ نے ان حادثات کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر چند اہم اقدامات کیے ہیں۔ 14 فروری 2025 ء کو شہرقائدؒ میں بھاری گاڑیوں کے دن کے وقت داخلے پر 60 دن کی پابندی عائد کی گئی، جس کے تحت رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک ان گاڑیوں کوآمدورفت کی اجازت دی گئی۔ تاہم، پانی، کھانے کے تیل، ادویات اور گوشت لے جانے والی گاڑیوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ، بھاری ٹریفک کیلئے مخصوص راستے مقرر کیے گئے تاکہ ٹریفک کے مسائل میں کمی کی جا سکے۔حکومت نے اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ تمام بھاری گاڑیوں کو روڈ پر چلنے کیلئے فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرناہوگا۔ اس قانون کا اطلاق کراچی کے اندر چلنے والی گاڑیوں کے علاوہ دیگر صوبوں سے آنے والی بھاری گاڑیوں پر بھی ہوگا۔ جو گاڑیاں بغیر رجسٹریشن یا فٹنس سرٹیفکیٹ کے پائی جائیں گی، انہیں ضبط کر لیا جائے گا، اور ایسی گاڑیاں فروخت کرنے والے شورومز بھی سیل کر دیے جائیں گے۔
ان تمام اقدامات کے باوجود عوام کو یقین نہیں کہ حکومت واقعی ان قوانین پر عملدرآمد کروانے میں سنجیدہ ہے۔ کراچی کے شہری حکومت پر اعتماد نہیں کرتے، کیونکہ ماضی میں بھی ایسے کئی اقدامات کیے گئے جو جلد ہی غیر مؤثر ہو گئے۔ والدین اور گھرانے ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ جب ان کا پیارا گھر سے باہر جائے تو وہ واپس زندہ آئے گا یا نہیں۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پاکستان) اس مسئلے پر کھل کر بات کر رہی ہے۔ 16 فروری 2025 کو ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ء ڈاکٹر فاروق ستار نے بھاری گاڑیوں کے حادثات میں ہلاکتوں کی تحقیقات کیلئے ایک آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس معاملے کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو عوام میں غم و غصہ مزید بڑھے گا اور حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ایم کیو ایم کے ایک اور سینئر رہنما ء مصطفی کمال نے بھی اس صورتحال پر شدید ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر شہری بھاری گاڑیوں کی تباہ کاریوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور حکومت بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مصطفی کمال نے زور دیا کہ ٹریفک پولیس کیلئے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ شہر میں بھاری گاڑیوں کے داخلے کو کنٹرول کرے۔ اگر واقعی نیت ہو تو داخلی راستوں پر سخت چیکنگ لگا کر ان گاڑیوں کو دن کے وقت شہر میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ مگر ٹریفک پولیس اور انتظامیہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ ان ٹرانسپورٹ مافیا کی پشت پناہی کر رہی ہے، جن میں پانی کے ٹینکرز اور دیگر بھاری گاڑیاں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل نہیں ہو رہا۔ عوام کا حکومت پر اعتماد ختم ہو چکا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سندھ حکومت ان کی جان و مال کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ان حادثات کے پیچھے محض انتظامی نااہلی نہیں بلکہ انسانی المیہ بھی چھپا ہوا ہے۔ ہر ایک جان جو سڑک پر بھاری گاڑیوں کے نیچے کچلی جاتی ہے، اس کے پیچھے ایک خاندان برباد ہو جاتا ہے۔ کراچی کی گلیوں میں اب خوف کی فضا چھا چکی ہے، اور عوام اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کے پیارے گھر سے باہر نکلیں اور بحفاظت واپس آ سکیں۔یہ مسئلہ فوری اور مستقل حل کا متقاضی ہے۔ حکومت کے حالیہ اقدامات مثبت ضرور ہیں، مگر جب تک ان پر سختی سے عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور سیاسی مداخلت کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک کراچی کے شہریوں کو ان حادثات سے نجات نہیں ملے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے، سیاسی جماعتیں اور شہری تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر آ کر اس مسئلے کو حل کریں تاکہ کراچی کے باسیوں کو پرامن اور محفوظ سڑکیں میسر آ سکیں۔