پہلی جنگ عظیم (1914ء-1918ء) میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور جب جرمنی ہار گیا تو برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا اور مختلف علاقے مختلف یورپی طاقتوں کے قبضے میں آگئے۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا، جس کو اعلانِ بالفور (Balfour Declaration) کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ فلسطین میں برطانیہ آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا۔ برطانیہ نے ان کو وہاں آباد ہونے اور منظم کرنے میں مدد دی۔ جب فلسطین کے عرب مسلمانوں میں یہودیوں کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہونے لگے اور دونوں کے درمیان میں شدید جھڑپیں ہونے لگیں تو برطانیہ نے فلسطین سے جانے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ سے اس علاقہ کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کہا۔اقوام متحدہ نے 1947ء میں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے : مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا۔یہودیوں نے 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان میں جنگیں چھڑ گئیں۔ یہ جنگیں 1967ء تک چلیں۔ جنگ کی شروعات میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور فلسطین کے کچھ اور علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ بقیہ فلسطین کے مختلف علاقوں پر مصر، شام، لبنان اور اردن کا قبضہ ہو گیا۔ بیت المقدس کا مشرقی علاقہ، جس میں حرم شریف اور مسجد اقصیٰ سمیت مقدس مقامات ہیں، اردن کے قبضے میں تھا۔ یہ صورت حال 1967ء تک قائم رہی۔اسرائیل-فلسطینی تنازع دنیا کے سب سے زیادہ طویل تنازعات میں سے ایک ہے، جو 70سال میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے تک پہنچ گئے ہیں۔ اسرائیل-فلسطینی امن عمل کے ایک حصے کے طور پر تنازع کو حل کرنے کے لیے مختلف کوششیں کی گئیں مگر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم نے ہر بار امن کے عمل کو پیچھے دھکیل دیا ۔1897ء کی پہلی صہیونی کانگریس اور 1917 بالفور اعلامیہ سمیت فلسطین میں یہودیوں کے وطن کے دعووں کے عوامی اعلانات نے خطے میں ابتدائی تناؤ پیدا کیا۔ اس وقت، خطے میں یہودیوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت تھی، حالانکہ یہ یہودیوں کی اہم امیگریشن کے ذریعے بڑھ رہی تھی۔ فلسطین کے لیے مینڈیٹ کے نفاذ کے بعد، جس میں برطانوی حکومت پر “فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی گھر کے قیام” کے لیے ایک لازمی ذمہ داری شامل تھی، یہ کشیدگی یہودیوں اور عربوں کے درمیان میں فرقہ وارانہ تصادم میں بدل گئی۔
ابتدائی تنازع کو حل کرنے کی کوششوں کا اختتام 1947ء کے اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے برائے فلسطین اور 1947-1949ء کی فلسطین جنگ میں ہوا، جس سے وسیع تر عرب اسرائیل تنازع کا آغاز ہوا۔ 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوجی قبضے کے بعد موجودہ اسرائیل-فلسطینی جمود کا آغاز ہوا۔طویل مدتی امن عمل کے باوجود، اسرائیلی اور فلسطینی کسی حتمی امن معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔1993-1995ء کے اوسلو معاہدے کے ساتھ دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت ہوئی، لیکن آج بھی فلسطینی غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے 165 “جزیروں” میں اسرائیلی فوجی قبضے کے تابع ہیں۔ اہم مسائل جنھوں نے مزید پیش رفت کو روک دیا ہے وہ ہیں سلامتی، سرحدیں، پانی کے حقوق، یروشلم کا کنٹرول، اسرائیلی بستیوں، فلسطینیوں کی نقل و حرکت کی آزادی،اور فلسطینیوں کا حق واپسی۔ دنیا بھر میں تاریخی، ثقافتی اور مذہبی دلچسپی کے مقامات سے مالا مال خطے میں تنازعات کا تشدد، تاریخی حقوق، سلامتی کے مسائل اور انسانی حقوق سے متعلق متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں کا موضوع رہا ہے اور عام طور پر سیاحت کو متاثر کرنے کا ایک عنصر رہا ہے۔ان حالات میں اسرائیل نے اپنے ازلی محسن کے خلاف ہر سطح پر محاذ کھولنے کا اعلان کیا ۔دوسری طرف اسرائیلی مظالم کے خلاف تحریک مزاحمت زور پکڑتی گئی ۔آزادی اور امن کے لئے تحریک حریت نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کرلی ،فلسطینیوں کے آزادی کی جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو مبینہ طور پر ایران کی حمایت حاصل رہی ،فلسطین اتھارٹی کے وجود نے بھی فلسطینیوں کی تحریک کو جلا بخشی .2014ء میں، فتح اور حماس دونوں پر مشتمل فلسطینی اتحاد کی حکومت تشکیل دی گئی۔ امن مذاکرات کا تازہ ترین دور جولائی 2013ء میں شروع ہوا اور 2014ء میں معطل ہو گیا۔مئی 2021ء میں، بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان، 2021 کو اسرائیل-فلسطین کا بحران مظاہروں کے ساتھ شروع ہوا جو غزہ سے راکٹ حملوں اور اسرائیل کے فضائی حملوں میں بڑھ گیا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ حماس کے اس حملے میں تقریباً 1200 افراد کو ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔اس کے بعد یہ جنگ دوبارہ شروع ہو گئی۔ بہر حال 15 جنوری 2025 کو اسرائیل اور حماس نے ایک بار پھر جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا جو کہ تاحال جاری ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے پانچ فروری 2025 کو ملاقات کی۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر امریکی قبضے کی بات کہہ کر سنسنی پھیلا دی۔ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ سے فلسطینی کو کہیں اور منتقل کرنے کے بعد امریکہ پٹی کو اپنے قبضہ لے لے گا اور اسے ترقی دے کر عالمی سیاحتی مقام میں تبدیل کرے گا جہاں دوسرے ممالک کے لوگ بھی آکر رہ سکیں گے۔ اسرائیلی نیتن یاہو نے ٹرمپ کے بیان کی حمایت کی۔یہودیوں نے ناجائز قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ، انہوں نے ان لوگوں کا