ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

عاصم نواز طاہر

ایک بار نبی پاکؐ کی رضاعی ماں حلیمہ آپؐ سے ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔آپؐ نے انتہائی احترام و محبت سے ان کا استقبال کیا۔پھر اپنی چادر مبارک ان کی تعظیم میں بچھا کر بہت محبت وخلوص سے انہیں اس پر بٹھایا اور تمام صعوبتیں بھلاکر ان سے باتوں میں مشغول رہے۔
میں سوچتا ہوں کہ رضاعی ماں کا یہ عظیم مقام ہے تو سگی ماں کا کیا ہوگا۔ماں کا اتنا عظیم مقام کیوں نہ ہو کہ وہ اولاد کے لیے اپنی خواہشات تک کا گلا گھونٹ دیتی یے، ہر قسم کی تکالیف برداشت کرتی ہے اور خود تو بھوکی رہ جاتی ہے مگر اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھلاتی ہے۔انسان کو والدین بالخصوص ماں کی اہمیت تب سمجھ آتی ہے جب وہ خود صاحب اولاد ہو جاتا ہے۔رات کو جب اولاد بستر پر بار بار پیشاب کردیتی ہے اور نیند پوری نہ ہو کر بھی بچوں کی ماں اف تک نہیں کرتی تب اس ماں اور اس کے خاوند دونوں کو اپنا بچپن اور آج کے مقابلے میں مشکل دور میں والدین کی تکالیف و قربانیاں یاد آتی ہیں لیکن اکثر اوقات وقت گزر چکا ہوتا ہے۔
ایک بار کسی آدمی نے پوچھا، یارسول اللهؐ! سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا تیری ماں- اس شخص نے تین بار یہی پوچھا تو آپؐ نے جواب میں ماں ہی کہا اور چوتھی بار پوچھنے پر فرمایا کہ تیرا باپ۔
( متفق علیہ)

والدین بالخصوص ماں کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔اولاد کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے ماں باپ کی نافرمانی سے بچے۔والدین کے دم سے ہی زندگی کی ساری بہاریں ہیں۔جب تک وہ زندہ رہتے ہیں انسان کے گرد ان کی دعاؤں کا اک بابرکت ہالہ قائم رہتا ہے اور اک ان دیکھا و انجانا سا سکون اور برکت ان کی زندگیوں کو توانائی فراہم کرتی رہتی ہے۔عام طور پر انسان کو یہ حقیقت والدین میں سے کسی ایک بالخصوص ماں کے جدا ہو جانے پر سمجھ آتی ہے مگر اس وقت سوائے اشک ریزی کے کچھ نہیں ہوسکتا۔

ایک بار حضرت جاہمہؓ نے نبی اکرم ؐ سے جہاد پر جانے کی اجازت چاہی۔آپؐ نے (ان سے) پوچھا: کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، تب آپ نے فرمایا: ”ان کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے“۔
(رواہ النسائی)
میں جب اپنی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو ماں کو اک نگہبان کی صورت اپنی حفاظت و رہنمائی کرتے دیکھتا ہوں۔اک وقت تھا کہ جب والد محترم صاحبِ فراش تھے۔صرف والدہ محترمہ کے آہنی حوصلہ اور اپنا سکھ سکون قربان کر کے ہماری پرورش و تربیت کے طفیل ہی وہ مشکل وقت گزر پایا ورنہ زندگی کے تلخ راستوں سے ہمارے لیے نکل پانا ممکن نہ ہوتا۔یہی وہ چیز ہے جو ماں کے رشتے کو سب سے ممتاز کرتی ہے اور اللہ تعالی کی زات بھی جنت کو ان قدموں میں ڈھونڈنے سے مشروط کرتی ہے۔ماں کی شان میں میرے زاتی اشعار عرض ہیں:
جس دی یارو ماں نئیں ہوندی
اس دی کوئی چھاں نئیں ہوندی
ماں بن راحت، ماں بن جنت
ایسی کوئی تھاں نئیں ہوندی
ماں جے راضی رب وی راضی
جو او منگدی ناں نئیں ہوندی
سارے رشتے ودھیا گھر دے
ماں بن گھر وچ جاں نئیں ہوندی
تیریاں باتاں پڑھ کے عاصم
کُج وی چاہو ناں نئیں ہوندی

Comments (0)
Add Comment