اداریہ
ملک میں عدالتی اصلاحات کا عمل ناگزیر قرار دیا جاتا رہا ہے ،تاہم اس حوالے سے کبھی کسی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا ۔اس اہم اور ضروری کام کے لئے مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت نے کاوشیں شروع کیں تو اسے کئی طرح کی رکاوٹوں کا سامنارہا ،مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے کی تیاری سے لیکر اسکی منظوری تک تمام مراحل کو شفاف بناتے ہوئے ساری سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا اور بالآخر سٹیک ہولڈرز راضی ہوگئے اس حوالے سے روزنامہ سرزمین عوام کو بروقت صورتحال سے آگاہ کرنے میں بازی لے گیا ،ادارے نے سب سے پہلے سٹیک ہولڈرز کے رضا مند ہونے کی خبر دیکر میڈیا میں اپنی برتری کا اعزاز برقرار رکھا ہے اس تناظر میں اب پاکستان کے آئین میں مجوزہ 26ویں ترامیم کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے ۔تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد آج 17اکتوبر کو دونوں ایوانوں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں آئینی ترامیم کی منظوری کے لئے مسودہ قانون پیش کیا جارہا ہے ۔آج آئینی ترامیم کی منظوری کا امکان ظاہر کی جارہا ہے ۔قبل ازیں 26ویں آئینی ترامیم سے متعلق مسودے کی تیاری اور سیاسی جماعتوں کے آئینی مسودوں پر مشارت مکمل کرلی گئی ۔دریں اثنا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بیرون ملک موجود اراکین اسمبلی اور سینیٹ کو اجلاسوں میں شرکت کو یقینی بنانے کیلیے پاکستان پہنچنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔اس سے پہلے اس تناظر میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے مسودے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے، پیپلز پارٹی نے بھی ہمارے تجویز سے ملتا جلتا مسودہ تیار کیا ہے۔کراچی میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے اسلام آباد میں وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ اس بل پر ایسا اتفاق رائے پیدا کیا جائے جس سے یہ آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور ہو، آئینی ترمیم پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے بلاول بھٹو کے شکر گزار ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آئینی ترمیم سے متعلق انہوں نے پہلے مسودے کو مسترد کیا تھا اور وہ اب بھی اس کو مسترد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو تجاویز جے یو آئی نے مرتب کی ہیں ان پر بات چیت ہوئی ہے، پیپلز پارٹی نے بھی ہمارے تجویز سے ملتا جلتا مسودہ تیار کیا ہے اور آج اتفاق رائے سے اس فرق کو بھی کم کردیا گیا ہے، وہ مسلم لیگ (ن) سے بھی یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ آئین کو محفوظ رکھیں گے اور ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنائیں گے۔ان کا کہنا تھا وہ پہلے بھی پاکستان، ملک کے آئین کے ساتھ کھڑے تھے اور آج بھی ملک کے ساتھ کھڑے ہیں۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جو تجاویز انہوں نے پی ٹی آئی کے سامنے پیش کی تھیں آج اتفاق رائے میں طے کی گئی تجاویز اس سے مختلف نہیں ہیں، وہ پی ٹی آئی کے سامنے یہ چیزیں رکھیں گے اور انہیں امید ہے کہ آئینی ترمیم پر پورے ایوان کا اتفاق رائے ہوگا۔مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وہ اس مسودے میں سے ملک کو، آئین کو اور پارلیمان کو کمزور کرنے والی تمام چیزیں نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو یہی ان کی کامیابی ہے۔اس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک میں جب بھی کامیاب آئین سازی ہوئی ہے اس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کل ہمیں رائیونڈ میں کھانے کی دعوت دی گئی ہے، ہماری کوشش ہوگی آج جو اتفاق رائے ہوا ہے وہ کل مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی اور پیپلز پارٹی تینوں جماعتوں کے درمیان ہو جائے۔ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش ہے کہ تمام جماعتوں کے درمیان آئینی ترمیم سے متعلق اتفاق رائے پیدا ہو اور اگر یہ ہوتا ہے تو یہ ہمارے ملک کے حق میں بہتر ہوگا، ہم سب کا آئینی ترمیم کا مقصد عوامی مسائل کا حل نکالنا ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ انہیں امید ہے اسمبلی سے منظور ہونے والا آخری بل اتفاق رائے سے منظور ہوگا۔ان حالات میں ملک میں آئینی ترامیم کے ذریعے ملکی تاریخ میں پہلی بار عدالتی اصلاحات ہونے جارہی ہیں ۔ملک کے نظام عدل کو شفاف بنانے کے حوالے سے اسے اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے ۔