جوہر کانپوری کی تاریخی پذیرائی اور ایک مرد خلیق کا تذکرہ

منشاقاضی
حسب منشا

ہندوستان کی شہر کانپور سے تعلق رکھنے والے ضمیر عصر حاضر پیکر صداقت سفیر اردو ممتاز شاعر فضیلت معاب جوہر کانپوری کے اعزاز میں ایک شعری نشست میں خواجہ جمشید امام میجر شہزاد نیر پروفیس شفیق خان راؤ محمد اسلم خان خالد ندیم شانی ڈاکٹر صغیر احمد صغیر علی عمران شاہین جناب عرفان صادق جناب ناصف اعوان مسلمہ نمرا ملک محترمہ فارحہ نوید ۔ جاوید قاسم ۔ صاحبزادہ حذیفہ اشرف عاصمی ، ولایت احمد فاروقی ، سعید بدر سعید، پروفیسر ضیغم عباس گوندل ، چوہدری رضوان کاھلوں، آفتاب جاوید سفیر امن و محبت اور چوہدری عثمان کاھلوں نے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔ کانپور کا جب نام آیا تو مجھے کشتگان معرکہ ء کانپور یاد آئے ۔ مسجد کانپور کے سلسلے میں شبلی کی وہ نظم جس کا عنوان تھا ہم کشتگان معرکہ ء کانپور ہیں بیان کی خوبی، خلوص کی تڑپ ، شعریت کی طنز ،صفائی بیان ، سلاست و روانی اور حقائق نگاری کے نقطہ نگاہ سے بہت دلکش اور موثر ہے اور آج اس کی صدائے بازگشت جوہر کانپوری کے لہجے میں اور ان کے طرز و اسلوب میں پائی گئی ۔ شبلی نعمانی نے کیا منظر کشی کی ہے

کل مجھ کو چند لاشہ ء بے جان نظر پڑے

دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیں

کچھ خورد سال ہیں جو چپ ہیں خود مگر

نیند آ گئی ہے منتظر نفخ صور ہیں

کچھ نوجوان ہیں بے خبر نشہ ء شباب

ظاہر میں گرچہ صاحب عقل و شعور ہیں

اٹھتا ہوا شباب یہ کہتا ہے بے دریغ

مجرم کوئی نہیں ہے مگر ہم ضرور ہیں

سینہ پہ ہم نے روک لیے برچیوں کے وار

ازبسکہ مست بادہ ء ناز و غرور ہیں

ہم آپ اپنا کاٹ کے رکھ دیتے ہیں جو سر

لذت شناس ذوق دل ناصبور ہیں

کچھ پیر کہنہ سال ہیں دلدادہ ء فنا
جو خاک و خون میں بھی غرق نور ہیں

پوچھا جو میں نے کون ہو تم آئی یہ صدا

ہم کشتگان معرکہ کان پور ہیں

ایک اور نظم علماء زندانی کے عنوان سے ہے جو شبلی کی دل کی گہرائیوں سے ابھرتی ہوئی آواز اور واردات قلب کی حقیقت آموز مصوری ہے نظم کے چند اشعار یوں ہیں۔

پہنائی جا رہی ہیں اور عالمان دین کو زنجیریں

یہ زیور سید سجاد عالی کی وراثت ہے

یہی دس بیس اگر ہیں کشتگان خنجر اندازی

تو مجھ کو سستی بازوئے قاتل کی شکایت ہے

شہیدان وفا کے قطرہ ء خون کام آئیں گے

عروس مسجد زیبا کو افشاں کی ضرورت ہے

اس سے اگلے شعر میں معصوم بچوں کی شہادت کے بارے میں نہایت موثر اور بلیغ شعر کہا ہے

عجب کیا ہے جو نو خیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں

کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سو جانے کی عادت ہے

مولانا شبلی نعمانی خود اس وقت بمبئی میں تھے آپ نے دور افتادہ ہونے پر ایک خاص رنج و حسرت کا اظہار کیا ہے۔

شہیدان وفا کی خاک سے آتی ہیں آوازیں

کہ شبلی بمبئی میں رہ کر محروم سعادت ہے
یہ تو میں نے جوہر کانپوری کے کان میں بھی یہ بات کہہ دی تھی کہ کان پور جہاں اردو کا مرکز ہے وہاں ہماری جذباتی وابستگیوں کی بھی داستان موجود ہے ۔ اس وقت میں اس مرد خلیق کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو اپنے دوستوں کا تذکرہ محبت اور اخوت اور رواداری کے لہجے میں اس لیے میں چاہتا ہوں

کوئی کرے تو تیرا تذکرہ کرے

وگرنہ کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے

بانی چیئرمین ملی ادبی پنچایت ریاض احمد احسان بھی کیا آزاد مرد ہیں بیٹھے بیٹھے پروگرام بنا اور چند گھنٹوں میں ہی اتنی بڑی تقاریب کر ڈالی اتنی اتنی بڑی محفلیں اور اتنی اتنی بڑی سنگتیں قائم ہو گئیں شاید یہ ان کا ذاتی طور پر دوستوں کے ساتھ تعلق کہہ لیں یا اس کو اثر و رسوخ کہہ لیں یا کہہ لیں کہ وہ عزت اور خلوص کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ اس انداز سے دعوت پیش کرتے ہیں کہ دوست اپنے سارے کام چھوڑ کے ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جوق در جوق شامل ہو جاتے ہیں ملی ادبی پنچایت 2012 سے ریاض احمد احسان 2012 سے لے کر اج تک تادم تحریر یہ 321 بڑے پروگرام کاسمو پولیٹن کلب میں اپنی میزبانی میں کر چکے ہیں اور بلاشبہ اس میں ایسے ایسے لوگوں کو مدعو کیا گیا ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ شامیں منائی گئی ایسے ایسے لوگوں کی کتابیں رونمائی کی گئی جن کو کوئی پوچھتا نہ تھا اور جن کی ریاض احمد احسان سے بھی کوئی ملاقات نہ ہوئی تھی صرف ادب کی بنیاد پر ایسے ایسے شعرا ایسے ایسے ادیب ایسے ایسے تخلیق کار جن سے کبھی وہ ملا نہیں لیکن ان کے اعزاز میں پروگرام رکھ دیا ان کی تقریب رکھ دی ان کی کتاب کی تقریب رونمائی بھی رکھی تقریب پذیرائی بھی رکھی اور نابغہ ء روزگار جتنے زندہ ادیب ہیں خطیب ہیں دانشور ہیں ان کے ساتھ ان کی زندگی میں انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک تحریک چلائی اور سب سے پہلے نعرہ بلند کیا کہ کتاب خرید کر پڑھی جائے گی اس کے لیے کئی شاعروں سے ان کی سینکڑوں کتابیں خرید لیں اور دوستوں کو بطور تحفہ پیش کیں وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بہترین تحفہ کتاب کا ہے لیکن یہ خرید کر اپ کو اپنے دوستوں میں بانٹنی چاہیے نہ کہ کسی بھی شاعر ادیب اور تخلیق کار سے اس کی تصنیف مفت لے کر اپنے گھر کی لائبریری میں محفوظ کر لی جائے جو کتاب خرید کر پڑھی جاتی ہے یقینا خریدی جاتی ہے یقینا وہی کتاب ریاض احمد احسان کا موقف ہے یہی بیانیہ ہے وہ ہمیشہ اسلامیت کی بات کرتے ہیں انسانیت کی بات کرتے ہیں پاکستانیت کی بات کرتے ہیں اور ادبیت کی بات کرتے ہیں اگر ان کے سیاسی کیریئر پر نظر دوڑائی جائے تو انتہائی بیباکانہ انداز میں وہ بات جو لوگ کہنے میں بڑا وقت لگتا ہے وہ بڑی آسانی

Comments (0)
Add Comment