سکون کی گھڑی

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
میرے ایک بینک کےپرانے ساتھی اور سینئر آفیسر عرفان میر صاحب اکثر بہت عمدہ تحریریں شئیر کرتے رہتے ہیں جنہیں پڑھ کر تازگی کا احساس ہوتا ہے اور ان کی چھوٹی چھوٹی کہانیا ں بڑی سبق آموز بھی ہوتی ہیں ،چند دن قبل انہوں نے اپنی وال پر یہ واقعہ “پرسکون رہیے اور اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھیں ” کے عنوان سے شئیر کیا تو ان کی بات اور سوچ بڑی اچھی لگی۔وہ کہتے ہیں کہ کسی کسان سے کام کرتے ہوۓ بھوسے کے ڈھیر میں اس کی گھڑی کھو گئی ۔وہ کوئی قیمتی گھڑی نہ تھی لیکن اس کی جذباتی قیمت شاید بہت زیادہ تھی کیونکہ وہ اس کے والد مرحوم کا دیا ہوا تحفہ تھی ۔کسان بھوسے کے ڈھیر میں گھڑی ڈھونڈھنے لگا مگر یہ کوئی اتنا آسان کام نہ تھاجلد تھک ہار کر کسان نے باہر کھیلتے ہوۓ بچوں کو مدد کے لیے آواز دی اور کہا جو میری گھڑی اس بھوسے کے ڈھیر میں سے ڈھونڈ کر دۓ گا اسے انعام دیا جاے بچوں کو تو اب کھیل کا شاندار میدان مل گیا ۔کچھ ہی دیر میں انہوں نے شور مچاتے ہوۓ اس ڈھیر کو پھیلا کر رکھ دیا لیکن گھڑی پھر بھی نہ ملی. بچے تھک ہار کر اکتا کر جانے لگےاور کسان بھی مایوس سا ہو گیا اور گودام کا دروازہ بند کرکے جانے لگا تو ایک بچے نے کہا جناب مجھے بس ایک چانس اوردۓ دو گے تو گھڑی مل سکتی ہے ؟ کسان مجبورا” دروازے پر بیٹھ گیا اور بچے سے کہا اندھیرے سے قبل جاو ایک کوشش اور کر لو گودام کے اندر اب مکمل خاموشی تھی۔بچہ اندر گیا اور کچھ دیر بعد ہی وہ بچہ گھڑی اٹھائے باہر آیا ۔کسان نے حیرت سے پوچھا یہ کہاں سے اور کیسے ملی ہے ؟بچے نے کہا میں نے اس دفعہ گھڑی نہیں ڈھونڈی بلکہ خاموشی سے بیٹھ کر اس کی ٹک ٹک سنی, پھر جس طرف سے آواز آئی اسی سمت گیا اور یہ بڑی آسانی سے بھوسے کے ڈھیر میں مل گئی۔کہتے ہیں کہ کہانیاں ہوتی ہی اس لیے ہیں کہ ان سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور ملتا ہے ۔عرفان میر صاحب کا خیال تھا کہ پرسکوں رہنے سے اور اپنے کام پر توجہ دینے سے کامیابی ہوتی ہے ۔ہماری ذہانت اور محنت تب ہی رنگ لاتی ہے جب آپ پر سکون رہتے ہیں پریشانی اور انتشار کا بے ہنگم شور تمام تر محنت پر پانی پھیر دیتا ہے ۔پریشانی اور انتشار تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لیتا ہے ۔سکون اور امن ہی آپ کو آپکی منزل سے روشناس کرا سکتے ہیں ۔کامیابی کی تلاش سکون کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتی ۔کوئی انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنی جدوجہد کی کامیابی کا سکون اور امن کے بغیر تصور نہیں کرسکتا ۔کوئی گھر ،خاندان ،طبقہ ،گروہ ،یا قوم سکون اور امن کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے ۔انتشار ،بدامنی ،شور وغل ،عدم استحکا م کا باعث بنتے ہیں ۔جبکہ امن ،سکون ہر معاشرے میں باہمی یکجہتی اور استحکام پیدا کرتے ہیں ۔یاد رہے کہ معاشرے ،قوموں اور ملکوں میں سکون اور اطمینان ہمیشہ معاشی اور سیاسی استحکام سے ہی وابستہ ہوتا ہے ۔بدامنی ،ناتفاقی اور انتشار ہمیشہ بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے ۔
ہم بحیثیت ایک فرد ،معاشرہ اور قوم پچھلے کئی سالوں سے جس طرح کی نااتفاقی ،بدامنی ،بے سکونی ،باہمی نفرت اور انتشار کا شکار ہیں اس نے ایک جانب تو ہمیں معاشی عدم استحکام کی جانب دھکیل دیا ہے دوسری جانب سیاسی عدم استحکام نے ہماری راہ میں نفرتوں اور باہمی تقسیم کے بیج بو دئیے ہیں ۔ہماری اناء اور ضد نے ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کردیا ہے اور ڈائیلاگ کی بجاۓ ڈیڈ لاک کی جانب بڑھتے جارہے ہیں ۔اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیت ہونے کے باوجود ہم دن بدن غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جارہے ہیں ۔مہنگائی اور غربت کے مارۓ لوگ اس عدم استحکام اور بدامنی کی باعث مایوسی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ان کی تمام تر امیدیں اپنے سیاستدانوں اور لیڈروں سے ہی جڑی ہوتی ہیں ۔آج پاکستان کے ہر شہری کی خواہش اور تمنا ہے کہ ملکی حالات بہتر ہوں امن و چین کی فضا قائم ہو تاکہ زندگی میں سکون کے سانس میسر آسکیں بہتر روزگار اور گذر اوقات کا تعلق بھی ملکی معاشی اور سیاسی استحکا م سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔آۓ دن کے احتجاج ،جلسے جلوس سے الٹا حالات خراب تر ہوتے چلے جارہےہیں ۔دھرنوں ،ریلیوں ،جلسے جلوسوں سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا سواۓ یہ کہ آپس کی نفرتوں میں مزید اضافہ ہونے لگتا ہے ۔یہ پچیس کروڑ لوگوں کا ملک ہےیہ ملک بڑی قربانیوں اور طویل جدوجہد کا ثمر ہے یہ مملکت خداداد جو اپنے تصور سے تشکیل وتخلیق تک ایک عظیم اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر متعارف کروائی گئی ہے اس مملکت میں عظیم ترین امت مسلمہ کے افراد کی نشو ونما اور پرورش مقصود تھی مگر آج ان نظریاتی مقصد کے حصول میں سیاسی خلفشار کی روکاوٹ حائل نظر آتی ہے ۔ گو اس کے نمائندوں اور قیادت نے ملکی فلاح و بہبود کا حلف لے کر ملک سدھارنے کا عزم کیا ہوا ہے لیکن وہ سب عجیب عدم برداشت کا شکار نظر آتے ہیں ۔ایوانوں میں لڑائی اور رسہ کشی سے پریشانی یہ ہے کہ دور دور تک سیاسی استحکام کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آرہی ہے ۔ہر سیاسی مسئلے کا حل سواۓ برداشت اور مذکرات کے کچھ اور نہیں ہوتا ہے ۔اگر ملکی مفاد عزیز ہے تو سب کو اپنی ضد اور انا ء کو ترک کرکےآپس میں مل بیٹھنا ہو گا بات چیت اور مذاکرات کرنے ہونگے ۔باہمی تصادم جھگڑوں سے کبھی کوئی حل نہیں نکلتا ۔خدارا مذکرات کا دروازہ کھولیں اور مسائل کو سڑکوں کی بجاۓ ایوانوں اور مذکرات کی میزوں پر بیٹھ کر حل کریں ۔کب تک ایوانوں میں احتجاج ،بائیکاٹ اور شور وغل برپا رہے گا۔پچیس کروڑ عوام تو وسیع تر قومی اتفاق راۓ اور قومی امور پر یکجہاتی کی خواہش مند ہے ۔وہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور لزام تراشی کی سیاست سے بیزار ہو چکی ہے ۔عوام مہنگائی اور بےروزگاری کے بارے میں اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے ۔یہ مسائل ایوانوں میں بیٹھ کر ہی ممکن ہو سکتے ہیں احتجاج اور سڑکوں پر مارچ کرنے سے یہ کب ممکن ہو سکتا ہے ؟ ہر وقت کا احتجاج اس کی اہمیت ہی ختم کردیتا ہے ۔ہمارے سب سیاستدانوں اور قائدین کو سمجھنا چاہیے کہ آج ہمارے ملک کو اتحاد و یکجہاتی کی ضرورت ہے ۔جس کے لیے سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا ۔اپنی ذاتی اور انفرادی لڑائی ،ضد اور اناء کو ختم کرکےاپنے ملک کی خاطر ایک دوسرے کو گلے لگانا ہو گا ۔ مسائل کا سیاسی حل بھی جمہوریت اور جمہوری عمل کا خاصا ہوتا ہے جو ڈائیلاگ اور بات چیت سے ممکن ہوتا ہے ۔مذکرات کے راستے کھولنے کی ذمہ داری ہمیشہ حکومت وقت کی قیادت پر ہوتی ہے اس لیے اس سلسلے میں حکومت کو ہی پہل کرنی ہوگی اور آگے بڑھ کر سب کو ایک جگہ اور ایک سوچ پر لانا ہوگا اور وہ یقینا” ملکی استحکام اور سلامتی کی سوچ ہے ۔یاد رہے کہ ملک کے وسیع ترین مفاد میں جھکنا بہت بڑی بڑائی اور عظمت ہوتی ہے ۔ہمیں اگر سکون کی اس گھڑی کو تلاش کرنا ہے تو اس کی ٹک ٹک کی آواز کو سننا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ احتجاج ،دھرنوں ،جلسے جلوسوں کا شور تھم جاۓ اور ملکی فضا پر سکون ہوجاۓ ۔جس کے لیے کسی ایک فریق کو نہیں بلکہ سب کو مل جل کراور اپنے اپنے مفاد سے بالاتر ہو کر کام کرنا پڑے گا ۔مگر حکومت کو بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہوگا اور ملکی امن کے لیے ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا اور اپنے مثبتاور پرخلوص طرز عمل سے اس کا اظہار بھی کرنا ہوگا ۔خلوص دل سے غیر مشروط مذاکرات کا دروازہ کھولنا ہی وقت کا تقاضا ہے ۔ذرا سوچیے ایسا نہ ہو کہ کچھ دیر ہو جاۓ ۔آئیں “سب سے پہلے پاکستان “کے بیانیے کو فروغ دیں اور اس کےمعاشی و سیاسی استحکام کے لیے اپنے اپنے حصے کی شمع ضرور جلائیں ۔ .

Comments (0)
Add Comment