۔۔۔۔محمد نوید مرزا۔۔۔۔۔۔
شاعری عطیہء خداوندی ہے۔جس کسی کو شعر کہنے کا ہنر اور سلیقہ عطا ہو جائے وہ باغ سخن میں اپنی خوشبو بکھیرتا چلا جاتا ہے۔قلم اور کتاب سے رشتہ استوار رکھنے والے دنیائے ادب میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔آج کے دور میں جینوئن شاعروں کی کمی ضرور ہے لیکن بہت سے شاعر اپنی بھر پور تخلیقی قوت سے شعری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں مصروف ہیں۔ایسا ہی ایک اہم نام انجینئر ظفر محی الدین کا بھی ہے،جن کی شاعری اپنی اندر بے پناہ وسعت اور گہرائی رکھتی ہے۔ظفر صاحب کی نئی کاوش ،در خیال پر دستک اس وقت میرے سامنے ہے۔یہ شاعری کی ایک ایسی کتاب ہے،جس میں موضوعات کی رنگا رنگی اور نت نئے قافیوں اور ردیفوں نے قاری کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے۔کتاب کی ابتدا ء میں حمد و نعت و منقبت شامل کی گئی ہے،جس کے بعد غزلوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ظفر صاحب اپنی غزل میں اچھے دنوں کی امید بھی رکھتے ہیں اور سیاہ شب میں سحر کی دعا بھی مانگتے ہیں۔ظفر محی الدین اپنی شاعری میں رشتوں سے جڑے بھی نظر آتے ہیں،جو ان کی ایک اضافی خوبی ہے۔انھیں اپنے ماں باپ اور بہن بھائی بیوی بچے بہت عزیز ہیں۔موجودہ دور میں جب رشتوں کا تقدس پامال ہوتا جا رہا ہے۔ظفر صاحب اپنی شاعری میں رشتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔تین مختلف نوعیت کے شعر دیکھیں
پایا ہے سکوں دل نے تری چھاؤں میں آکر
اے میری محبت کے شجر عید مبارک
ماں باپ بہن بھائی سے ہیں عید کی خوشیاں
ان کو تو کہو بار دگر عید مبارک
یہ ایک اور طرح کا شعر دیکھیں
میں ان کی موت کا پرسہ خدا کو جا کر دوں
جو بچے مارے گئے اپنی ماؤں میں رہ کر
ظفر محی الدین صاحب کی شاعری میں پختگی ،خیال آفرینی،روانی ،بے ساختگی اور انداز بیاں کی خوبصورتی نمایاں ہے۔وہ کہیں مشکل پسند اور کہیں سادہ نظر آتے ہیں،لیکن ہر دو حوالوں سے ان کا کلام اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے۔تاہم وہ ایک عاجزی پسند انسان ہیں ۔اس لئے کہتے ہیں
جھکائے رکھتے ہیں سر کو کسی زمیں کی طرف
فلک نشینی ہیں عاجزی سکھاتی ہے
مزاج میں عاجزی رکھنے والے ظفر محی الدین کی شاعری میں تصوف کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔کبھی کبھی وہ سیاسی ،سماجی اور معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ عدم مساوات پر بھی چیخ اٹھتے ہیں۔تصوف ،طریقت،بعیت اور شریعت کے موضوع کو وہ نئے رنگ سے شعروں میں سموتے ہیں۔آپ بھی پڑھیں
دست منصور پہ بعیت کر لے
ہو بہو نعرہء مستانہ لگا
جا کے سجدے میں اذاں عشق کی دے
کر وضو نعرہء مستانہ لگا
ساتھ عطار کے ہو رقص کناں
رکھ سبو نعرہء مستانہ لگا
سلوک اور طریقت سے آشنائے نیاز
دریدہ نیند رہے گہرے رت جگوں سے پرے
راز پوشیدہ ء نظر ہیں جہاں
اس جگہ بھی ظہور کچھ تو ہے
رب نے جمالیات کا بخشا انھیں شعور
کرتے ہیں عام لوگوں سے جو بات مختلف
عرصہء وہم میں تھا صورث اسرار کوئی
بے خیالی کا پرندہ کوئی عنقا نہ بنا
راتوں رات شہرت پانے والوں کے نام لکھتے ہیں
پل میں شہرت ملی تو کیا حاصل
ہوئے کم بخت ایک دم رسوا
ظفر صاحب جنگ اور اس کی تباہیوں سے واقف ہیں اور امن کے خواہاں ہیں۔جنگ کے حوالے سے چند شعر دیکھیں
تباھی سے ہوئے مسمار شہر گل آخر
طویل جنگ کا اک روز اختتام ھوا
شہر میدان جنگ بنتے ہی
موت ہر سمت بے دھڑک پہنچی
میں لوٹا جنگ سے بے داغ پھر بھی پکڑا گیا
کہ میری روح پہ کوئی نشان تھا شاید
محبت ایک ایسا موضوع ہے جو ہر شاعر کی شاعری میں کم یا زیادہ موجود ہوتا ہے،سو ظفر صاحب نے اپنے اس مجموعے میں اس موضوع پر خاصے خوبصورت شعر کہے ہیں۔آپ بھی پڑھیں
اس شہر شور و غل میں فقط تیرے نام کے
جو بھی صدا ہے میری سماعت پہ بار ہے
تیرے ڈمپل سے کچھ نہیں ہوتا
دل کو ہلچل سے کچھ نہیں ہوتا
وہاں پہ تخت نشیں تھی سراپا ناز کوئی
سیاہ چشمی نہیں چال بھی غزالی تھی
وہ چشم و لب کو سکھاتے ہیں زندگی کرنا
خموشی اس کی ظفر شاعری سکھاتی ہے
وہ اپسرا کہ طلسم وجود سے اپنے
جسے اسیر کرے گمرہی سکھاتی ہے
میری دعا ہے کہ ظفر صاحب کہ یہ شعری مجموعہ خوب پذیرائی حاصل کرے اور وہ یونہی قلم اور کتاب سے جڑے رہیں،آمین