تعلیمی ڈھانچہ، معیشت اور مارکیٹ

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
ایک وقت تھا جب یہ تصور تھا کہ جیسے جیسے لوگ تعلیم حاصل کریں گے۔ مسائل میں کمی ہوجائیگی۔ ویسے تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ تاہم ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ پڑھ لکھ کر بے روزگار پھر رہے ہیں اور نوجوان نسل بے روزگاری کی وجہ سے ذہنی تناو کا شکار ہوئی ہے۔ کچھ نے اسلحہ اٹھا لیا اور ڈاکے ڈالنے شروع کردیئے۔ کچھ نے سکون کی تلاش میں زہر کھا لیا۔ یوں ایسی صورتحال سے بے شمار مزید مسائل نے جنم لیا ۔ ہمارے ہاں تعلیم پر بڑی توجہ دی گئی ہے۔ ایک وقت تھا دس میل کے بعد ایک ہائی سکول ہوتا تھا اور کالج خال خال تھے۔ والدین کو اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے دور دراز علاقوں میں بھیجنا پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ ماں کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے اپنے سارے زیور بیچنے پڑتے تھے اور والد اپنا فرض پورا کرنے کے لئے اپنی پیلیاں تک بیچ دیتا تھا اور جن کے پاس کچھ نہ تھا ان کے بچے سہمے ہوئے رہتے تھے اور تقدیر کا لکھا سمجھ کر مزدور بننے کو ترجیح دیتے تھے۔ یوں کلاس سسٹم کو مزید تقویت ملتی تھی۔ تاہم پھر ہم سب کی آنکھیں کھل گئیں اور ہم نے سکولوں کالجوں کے جال بچھا دیئے اور پھر ان جالوں کو اپنے ہاتھوں سے ہی چھیدنا شروع کردیا۔ اساتذہ کی بھرتیاں،تعیناتیاں اور جزا سزا سیاسی بنیادوں پر کی جانے لگی۔ اقربا پروری کا جن بوتل سے باہر آگیا اور اس نے بھی خوب تباہی مچائی مزید کسر کرپشن نے نکال دی۔ تعلیمی اداروں کی بڑی بڑی عمارتیں اور افرادی قوت پارٹی بازی کا شکار اور طلباء و طالبات محروم ہی آئے اور محروم چلے گئے۔ پھر پبلک پرائیویٹ سیکٹرز آمنے سامنے۔ مقابلے کی فضا قائم ہوگئی۔ اور بالآخر پرائیویٹ سیکٹر بازی لے گیا اور پبلک سیکٹر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ پرائیویٹائزیشن کر کے دیکھ لیتے ہیں۔ تاہم ہائر ایجوکیشن اور یونیورسٹیوں کا قیام خوش آئند۔ پنجاب یونیورسٹی پر دباو کم اور ہاں کوالٹی ایجوکیشن زیر بحث اور دیگر کئی امور کے بارے میں بحث تمحیص۔ سوشل اور نیچرل سائنس کا تقابلی جائزہ اور ہر دو کا طلبا کے مستقبل کے حوالے سے اطلاق۔ بحثوں کے ویسے بھی ہم رسیا بھی ہیں اور ماہر بھی۔ نتیجہ نکالنا ہمارا کام نہیں ہے۔ لہذا سیمینار، مذاکرے، تبصرے اور چل سو چل۔ ہماری جامعات دھڑا دھڑ پڑھے لکھے پیدا کررہی ہیں اور یہ پڑھے لکھے ڈگریاں اٹھا کر سڑکوں پر پیدل مارچ کررہے ہیں۔ ادارے دن بدن اپنی افادیت واہمیت اس لئے کھورہے ہیں کہ ان کے پاس پیشہ ور اور اہلیت کا حامل سٹاف نہیں ہے۔ کہاں گئے اتنے سارے پڑھے لکھے۔ آنکھیں بند کر کے ذہن کو سوچنے کے لئے فری ہینڈ دینے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ دنوں معروف دانشور اور استاد پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس سابق ڈائریکٹر ایریا سٹڈی سنٹر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے راجن پور میں ملاقات ہوئی۔ اللہ رے راجن پور نے بھی کیسے کیسے سپوت پیدا کئے ہیں۔ ان سے سوشل سائنس کی تعلیم کا استعمال ہمارے مستقبل کے حوالے سے سوشل سائنس کی تعلیم کے استعمال کے موضوع پر بات ہوئی۔ میرا زور اس بات پر تھا مذکورہ تعلیم ایک اچھا انسان بنانے کے لئے ضروری ہے۔ حب الوطنی اور انسان دوستی کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ معاشرتی اور سماجی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں شعور بیدار کرتی ہے۔ انسانی جذبوں کی بابت ہم آگاہ ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پروفیسر مذکور نے اس کو ایک نئے زاویے سے لیا اور ان کا خیال تھا کہ جب تک ہم تعلیم کو خواہ وہ سوشل سائنس ہو یا نیچرل سائنس ہو کا تعلق معیشت اور مارکیٹ سے قائم نہیں کرتے اس وقت تک ہمارے ہاں تعلیم یافتہ بے روزگار پیدا ہوتے رہیں گے۔ جب بھی نوکری کے لئے درخواستیں مانگی جاتی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ضرورت مند اپلائی کرتے ہیں اور جب بھرتی کا مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے تو آٹے میں نمک کے برابر امیدوار سرخرو ہوتے ہیں۔ زیادہ تر آبادی غریب ہے اور ان کے بچے سرکاری سکولوں کالجوں سے ہی فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور متذکرہ بالا ادارے روایتی تعلیم دے رہے ہیں۔ اوپر سے ہم نے سنڈیکیٹ میں عوامی نمائندے بٹھا دیئے ہیں ان کا اصل مسئلہ ان کے ووٹر کا خوش ہونا ہے اور ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا داخل بھی ہو اور پاس بھی ہو۔ اب یہ فیصلہ کرنا آسان ہوگا کہ ہمارے فیصلے مبنی بر مصلحت ہیں یا مبنی بر انصاف ہیں۔ ویسے بھی انصاف ہم نے عدالتوں کے کھاتے میں ڈالا ہوا ہے اور عدالتوں میں وکیل کا اہم کردار ہے اور وکیل نے بھی تو بار کونسل کی سیاست کرنا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے کاروبار کررہے ہیں اور اس کاروبار کے فروغ کے لئے وہ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ لمز اور دیگر ایسے اداروں کا پروڈکٹ خوب بکتا بھی ہے اور چلتا بھی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ان اداروں میں تعلیم کو معیشت اور مارکیٹ سے لنک کیا جاتا ہے۔یہی تو بات ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کی ہے کاش اس بات کا احساس ہم سب کو ہو جائے تو آج بھی پبلک سیکٹر کی جامعات میں کوالٹی ایجوکیشن کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور جامعات کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے ایسا ممکن ہو جائے فی الحال تو بیورو کریسی، سلیکشن کمیٹی اور وائس چانسلرز کی تعیناتی اور وہ بھی میرٹ پر۔ میرٹ پر کئے گئے فیصلوں نے اپنا رنگ دکھانا ہوتا ہے. تاہم اس سلسلے میں مزید چند اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عصری تقاضوں کا پورا شعور ہونا اور جدید خطوط پر سوچ بچار۔ اپلائیڈ سائنس کو پیش نظر رکھنا اور اس کے تحت نوجوان نسل کی فیوچر پلاننگ۔ پالیسی بنانے سے پہلے پورے سپیڈ ورک کی ضرورت ہے اور پالیسی بنانے کے عمل میں حکومت کو کسی مصلحت کا شکار ہر گز ہر گز نہیں ہونا چاہیئے۔ بعد از ترتیب و

Comments (0)
Add Comment