احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
رشتوں کی اپنی ایک عجیب کائنات ہوتی ہے ۔ہر رشتہ اپنی اپنی جگہ اہم اور معتبر ہوتا ہے اور ہر رشتے کی محبت کا اپناہی ایک پیمانہ ہوتا ہے ۔دنیا میں آج تک ا ن قدرتی رشتوں کی محبت اور پیار کو مانپنے کا کوئی پیمانہ نہیں بن سکا ۔یہ رشتے قدرت کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں اور ان کی محبت بھی قدرت کی جانب سے ودیعت کی جاتی ہے ۔ان ہی رشتوں میں ہمارے بزرگوں سے قائم بچوں کی انسیت کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔بزرگوں سے محبت کاپیمانہ تو کوئی نہیں ہوتا ہے مگر محبت کا اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے وہ بھی ان کی زبان یا کلام سے نہیں بلکہ ان کے رویے سے سامنے آتا ہے ۔اسی لیے کہتے ہیں کہ بچہ اور بوڑھا دونوں یکساں ہوتے ہیں ۔بزرگ اپنے بچوں (یعنی اولاد ) سے بھی زیادہ ان کے بچوں سے محبت کرتے ہیں ۔معمر افراد اور نانا نانی ،دادا دادی کے رشتوں کا عالمی دن ہر سال تیرہ اکتوبر میں منایا جاتا ہے ۔اس دن کے منانے کا مقصد اس خوبصورت رشتے کی اہمیت اور اپنے بچوں میں بزرگوں کے حقوق اوراحترام کا شعور اجاگر کرنا ہوتا ہے ۔جبکہ گوگل کی جانب سے بھی اس خوبصورت رشتے کو ڈوڈل کی شکل میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی دادا کی آخری محبت اس کا پوتا ہوتا ہے جبکہ پوتے کی پہلی محبت اس کا دادا ہوتا ہے ۔پوتے سے دادا بننے کا یہ ایک طویل سفر ہوتا ہے جو محبت سے شروع ہو کر محبت پر ختم ہوتا ہے ۔رشتوں کی یہ خوبصورت لڑی بننے میں کم ازکم بیس سے پچیس سال امیدوں اور آرزوں کی شمع جلانی پڑتی ہے تب جاکر ایک خوش قسمت انسان کو یہ پوتا نامی کھلونا کھیلنے کو ملتا ہے ۔اس کے کان برسوں انتظار کے بعد لفظ “دادا ” سن کر نہال ہو جاتے ہیں ۔میرے دادا جان کہتے تھے کہ جب میں تمہیں گلے سے لگاتا ہوں تو میری آدھی بیمار ختم ہو جاتی ہے ۔جب میں ان کی انگلی پکڑ کر چلتا تھا تو دنیا بےحد خوبصورت لگتی تھی ۔یہی محبت مجھے نانا جان اور نانی کی حاصل رہی ۔آج میں خود نانا اور دادا بن چکا ہوں تو مجھے ان کی محبتوں کا شدت سے احساس ہونے لگا ہے ۔میرے کالم پڑھ کر میرا ایک نواسہ حسن عبداللہ جو ابھی تیسری جماعت کا طالب علم ہے وہ اکثر مجھےاپنے کالم لکھ کر بھجواتا ہے جو بڑے دلچسپ ہوتے ہیں ۔اسکی محبت کا اظہار اس کے لفظوں کی سچائی سے جھلکتا ہے ۔وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں دراصل اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے ۔اسی عالمی پر بچے اپنے بزرگوں سے مختلف طریقوں سے اظہار محبت کرتے ہیں ۔گو بزرگ کبھی ناراض نہیں ہوتے لیکن اس دن جھوٹ موٹ روٹھے بزرگوں کو مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ دن گزار کر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔اسلام تو ہمیں پورے سال کے ہر ہر لمحے ان بزرگوں کے احترام اور ان سے محبت کا درس دیتا ہے اور مسلمان کے لیے ہر دن ہی دادا دادی اور نانا نانی کا دن ہوتا ہے ۔
پچھلے دنوں فیس بک پر اسی حوالے سے ایک سات سالہ بچے کا اپنے دادا دادی اور نانانا نی کے بارے میں مضمون پڑھا تو تو ایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ ہم سب کے احساسات ہیں جو بیان صرف آج کا بچہ ہی کرسکتا ہے کیوں کہ بچے ہی تو من کے سچے ہوتے ہیں ۔وہ سات سال کا چھوٹا سا بچہ اپنے مضمون میں ان بزرگوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ مجھے اپنے دادا نانا اور دادی نانی سے بہت محبت ہے ۔یہ بہت اچھے ہوتے ہیں ۔دادا دادی/ نانا نانی ایک عورت اور ایک مرد ہوتے ہیں جن کے اپنےہمارے جیسے چھوٹے بچے نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ ہمیشہ دوسرے لوگوں کے بچوں کو پسند کرتے ہیں۔ وہ شاید ایئرپورٹ یا ریلوے اسٹیشن پر رہتے ہیں، جہاں سے ہم انہیں لینے جاتے ہیں اور بعد میں واپس چھوڑ دیتے ہیں۔ دادا / نانا ایک مرد ہوتے ہیں اور دادی/نانی ایک عورت یہ لوگ ہمارے ساتھ سپر اسٹور/مارٹ پر خریداری کرنا پسند کرتے ہیں مگر خریداری صرف ہمارے لیے کرتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ بوڑھے ہوتے ہیں مگر چہرے بہت معصوم ہوتے ہیں ۔ وہ ٹافیاں اور گھر کی بنی مٹھائیاںساتھ لاتے ہیں۔ جب وہ ہمیں واک پر لے جاتے ہیں تو وہ ناجانے کیوں ہمیشہ آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور ہماری انگلی پکڑے رہتے ہیں ۔ وہ ہمیں انسانیت، محبت، ہمدردی اور ہمارے ہم وطنوں کے بارے میں باتیں بتاتے ہیں کہانیاں اور نظمیں سناتے ہیں ۔ وہ برے الفاظ نہیں بولتے جیسے میرا بھائی بولتا ہے۔ عام طور پر وہ صبح چائے یا کافی پیتے ہیں۔ وہ موٹے شیشوں والا چشمہ پہنتے ہیں۔ وہ اپنے دانت برش کرنے کے لیے باہر بھی نکال سکتے ہیں کبھی کبھی انہیں لاٹھی یا پہیوں والی کرسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دادا دادی / نانا نانی ذہین بہت ہوتے ہیں۔ دادی/ نانی ہمیشہ ماں سے زیادہ مزے کا کھانا بناتی ہیں۔ دادا / نانا ہمیں ایسی کہانیاں سناتے ہیں جو ہیری پوٹر سے بھی اچھی ہوتی ہیں۔ دادا دادی/نانا نانی۔۔امی اور ابو کی طرح کبھی لڑائی بھی نہیں کرتےاور دوسروں کو بھی لڑنے سے روکتے ہیں ۔ ہر کسی کے پاس کم ازکم ایک دادی دادا/ نانا نانی ضرور ہونے چاہئیں۔ وہ ناتواں ہونے کے باوجود ہمیں گود میں اور کندھوں پر اٹھاتے ہیں پیار کرتے ہیں اور بوسہ دیتے ہیں۔ دادا/نانا اس زمین پر سب سے سمجھدار اور عقلمند آدمی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے چشمے اور دیگر چیزیں گھر میں جگہ جگہ رکھ کر بار بار بھول جاتے ہیں۔ اللہ میاں میرے دادا دادی/نانا نانی کو ہمیشہ سلامت رکھنا۔اس بچے کے ایک ایک لفظ سے سچائی جھلک اور اس کے دلی جذبات کی عکاسی نطر آتی ہے ۔
دادا ،دادی اور نانا نانی ہمارے بچپن سے جڑے وہ رشتے ہیں جنہیں ہم اپنے والدین کے بارے میں بھی شکایت سنا نے کے لیے بھاگتے ہیں کہ وہ ہماری بات نہیں مان رہے اور سمجھتے ہیں کہ وہی ہماری داد رسی کر سکتے ہیں ۔مجھے جب کوئی چیز خریدنے کی خواہش ہوتی تو میں بچپن میں اپنے دادا سے کہتا کہ بڑے ابا جی مجھے سایکل دلا دو ان کی سفارش سے مطلوبہ چیز فوری مل جاتی تھی ۔ہماری دادی جان زبان کی بہت اور دل بہت نرم تھی اپنی ہر ڈانٹ کابدلہ محبت بھری مٹھائی ٹافیوں یا کچھ پیسے دے کر کرتی تھی ۔نانی جان تو پورے سال جو کچھ کھاتیں اس میں سےہمارا حصہ سالوں محفوظ رکھتیں تھیں ۔میں آج ستر سال کی عمر میں بھی اپنے دادا جان کے جسم کا لمس محسوس کرتا ہوں اور آج بھی ہر دکھ تکلیف ان کی یاد مجھے حوصلہ دیتی ہے ۔
بےشک یہ رشتے ہماری زندگی میں بہت اہم ہوتے ہیں بلکہ یہ ہمارے گھر کی وہ جڑیں ہوتی ہیں ۔جن کے تعاون کے بغیر ہم اپنا وجود ہی نامکمل سمجھتے ہیں ۔یہ رشتے ہمارے بچوں کی زندگی کا سب سے ناگزیر حصہ ہوتے ہیں گو ان کے ساتھ بہت کم وقت گزارنے کا موقع ملتا ہے مگر وہ لمحات زندگی مخٹصر ترین یادگار ہوتے ہیں ۔وہ بچے بہت ہی خوش قسمت ہیں جن کو ان رشتوں کے ساتھ جینے اور ان کی محبت کے مواقع مل جاتے ہیں ۔جس دن یہ گھنے شجر ہمارے آنگن میں نہیں رہتے تب ان کی قدروقیمت کا اندازہ ہوتا ہے ۔اور زمانے کی کڑی دھوپ کا احساس اور شدت بھی ستانے لگتی ہے ۔یہ رشتے نظروں سے تو ہٹ جاتے ہیں لیکن کبھی دلوں سے نہیں جاتے۔دن ، ہفتے ،ماہ ،سال ہمیشہ گزرتے رہیں گے اور وقت ہمیشہ گزرتا رہے گا لیکن ان رشتوں کی یادیں ہمیشہ ذہن پر نقش رہتی ہیں ۔ان کے بغیر ہمارا وجود ناممکن اور نامکمل ہے چونکہ ماضی کے بغیر کوئی وجود نہیں ہو سکتا اسی طرح نوجوان بھی بوڑھوں کے بغیر اپنا وجود نہی ںرکھ سکتے انہیں رشتوں کی طاقت سے ہماری دنیا مستحکم رہتی ہے ۔آج اس عالمی دن پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہر عمر کے ان لوگوں پر فرض ہےجنہوں نے اپنی زندگی میں ان کی محبتیں سمیٹیں ہیں ۔،