میرے استادمیرے رہنما۔۔اعجازرضوی

تحریر ۔۔۔نیلما ناھید درانی

لوگ کہتے ھیں محبت زندگی میں ایک بار ھوتی ھے۔لیکن میرا خیال ھے کہ ھم محبت میں بار بار مبتلا ھوتے ھیں۔اور ھر محبت میں اتنی ھی شدت اور سچائئ ھوتی ھے۔یہ الگ بات ھے کہ ھر محبت کا دورانیہ مختلف ھوتا ھے۔اور جس سے محبت ھو جائے اس کی جنس ،نسل، زندہ یا مردہ ھونا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ویسے بھی ھم ماضی پرست لوگ ھیں۔ماضی میں رھنا اور ماضی کے کرداروں سے محبت کرنا پسند کرتے ھیں۔
میری پہلی محبت ۔میری پہلی کلاس کی ٹیچر تھی۔۔۔۔ھم پڑھنے سے زیادہ اس کو دیکھتے۔ور گھر آ کر اپنا سبق بھی اس لیے یاد کرتے کہ اگلے روز ٹیچر کی داد پا سکیں۔
لیکن جونہی ھم نے پہلی کلاس پاس کی۔ھماری ٹیچر کی بھی ترقی ھو گئی۔ان کو تیسری کلاس کی ٹیچر لگا دیا گیا۔
ھم دوسری کلاس میں تھے۔روزانہ صبح بستہ پکڑ کر سکول جاتے مگر اپنی کلاس میں بیٹھنے کی بجائے۔تیسری جماعت کے دروازے پر کھڑے ھو جاتے۔ھمیں تیسری کلاس میں داخل ھونے کی اجازت نہیں تھی۔ھم دن بھر دروازے میں کھڑے رھتے۔
ھماری کلاس ٹیچر ھمیں بلانے آتیں۔مگر ھم ان کے ساتھ نہ جاتے۔سکول کی پرنسپل نے بلا کر سمجھایا۔ڈانٹا۔مگر سب ھماری ضد کے سامنے ھار گئے۔آخر کار پرنسپل نے میرے والد کو خط لکھا کہ مجھے تیسری جماعت کی کتابیں لے دیں۔گھر پر خصوصی محنت کروائیں۔۔۔اب ھم آپ کی بیٹی کو اگلی کلاس میں داخل کر رھے ھیں۔میری ڈبل پروموشن ھو چکی تھی۔۔۔مگر اب میری پسندیدہ ٹیچر نے مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا تھا۔شاید وہ جان بوجھ کر ایسا کر رھی تھیں۔کیونکہ جب اگلے سال میں نے امتحان پاس کیا تو میں اس ٹیچر سے ملے بغیر اپنی نئی کلاس میں چلی گئی۔
مجھے ان کا نام تک یاد نہیں۔شاید میری اس پہلی محبت کی معیاد ختم ھو چکی تھی۔
بچوں کی کہانیاں تو چوتھی کلاس میں ھی لکھنی شروع کر دیں۔۔۔۔دیواروں کے لکھے اشتہارات پڑھنا۔پسندیدہ مشغلہ تھا۔۔۔۔گھر میں موجود بچوں کے رسالوں، ادبی کتابوں کے ساتھ مذھبی کتابیں پڑھ پڑھ کر لکھنے کی تحریک ھوتی۔جب پہلی کہانی جناب نظر ذیدی نے اپنے رسالے ھدایت میں چھاپی۔تو مزید کہانیاں لکھنی شروع کی ۔ساتویں جماعت میں ریڈیو پاکستان لاھور میں بچوں کے بیت بازی کے پروگرام میں حصہ لیا۔۔۔۔جس کے لیے ھماری ٹیچر گلشن نے ھمیں تیاری کروائی تھی۔انھی دنوں ریڈیو پر مہدی حسن کی گائی ھوئی فیض احمد فیض کی غزل۔
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے۔نشر ھوتی۔تو ھم پہروں سوچتے۔کہ ھماری مس گلشن کا ایسا کون سا کاروبار ھے۔جو چل نہیں رھا۔مس گلشن کی شادی نہیں ھوئی تھی۔ھمارا خیال تھا کہ ان کا منگیتر کہیں دور رھتا ھے ۔وہ آئے گا تو ان کا کاروبار چلے گا۔میں نے ریڈیو کے لیے بچوں کی کہانیاں لکھنی شروع کیں۔جو عفت انعام کی آواز میں روزانہ شام کو ریڈیو پر نشر ھوتی تھیں۔ھائی سکول میں گرل گائیڈ بھی بن گئی۔جہاں میری استاد مسز برکی تھیں۔میری کلاس ٹیچر ایک دھان پان سی لڑکی تھیں۔۔۔جن کا نام مس شمیم کرمانی تھا۔۔۔سکول کی پرنسپل مسز زیدی تھیں۔اور وائس پرنسپل مسز لطیف۔
مسز زیدی گوری چٹی مہربان صورت پرنسپل تھیں۔۔۔۔ان کے بر عکس مسز لطیف لحیم شحیم خاتون تھیں جن کے چہرے کی سنجیدگی ھی طالبات کو ھراساں کرنے کے لیے کافی تھی۔۔مس کرمانی بہت اچھی استاد تھیں۔۔ وہ ھمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتیں۔۔۔ میرے لکھے مضامین پر داد دیتیں۔۔۔کیونکہ میرے لکھے ھوئے نصابی مضامین بھی ساری کلاس سے مختلف ھوتے تھے۔مگر ان سے محبت نہیں ھوئی۔مسز برکی میری بہت حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔تقریری مقابلے ھوں۔گرل گائیڈ کے پروگرام ھوں۔ڈرامہ ھو ۔کوئی ورائٹی پروگرام ھو۔یا سکول کا مینا بازار۔۔۔۔ھر موقع پر مسز برکی۔مجھ پر اعتماد کرتیں۔اور میں ھر جگہ نمایاں ھوتی۔۔گیمز کے میدان میں مس گلشن مجھے ڈھونڈتیں۔بیڈ منٹن کے مقابلوں کے لیے وہ مجھے ساتھ رکھتیں۔گائیڈ ھاوس میں گرل گائیڈ کا کیمپ لگایا گیا۔میں کیمپ میں بیمار ھو گئی۔کیمپ انچارج نے میرا بہت خیال رکھا۔مجھے گھر تک چھوڑنے آئیں۔ھم اس کی محبت میں مبتلا ھو گئے۔
لیکن کچھ دن بعد ان کو بھول کر۔۔۔اپنے سکول کی ٹیچر مسز ناصرہ۔۔۔سے عشق ھو گیا۔میری کلاس فیلو صوفیہ بھی اس محبت میں میری شریک تھی۔
مسز ناصرہ ھماری کلاس ٹیچر نہیں تھیں۔میں اور صوفیہ اپنے فارغ پیریڈ میں مسز ناصرہ کی کلاس کے باھر کھڑے ھو کر انھیں دیکھتے رھتے۔پھر وائس پرنسپل مسز لطیف کی گرجدار آواز سے ڈر کر واپس اپنی کلاس میں آجاتے۔۔ریڈیو پر ایک دن اک سانولی سلونی دبلی پتلی نہایت سمارٹ چمکتی آنکھوں والی لڑکی سے ملاقات ھوئی۔اس کے بال، اس کی آواز، اس کا لباس غرض وہ ھر انداز سے اتنی پیاری تھی۔کہ اس سے عشق ھو گیا۔وہ حسینہ ادیبہ، صحافی اور صداکارہ۔سلمی جبین تھی۔سلمی جبین کو میرے لکھنے کا پتہ چلا تو انھوں نے مجھے۔۔۔اپنے اخبار کوھستان کے بچوں کے صفحے کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔وہ مجھے اپنے ساتھ کوھستان اخبار کے دفتر لے کر گئی۔۔۔۔جہاں کوھستان اخبار کے مالک اشرف طاھر سے ملوایا۔اور کہا کہ یہ بچوں کے صفحے کے لیے لکھا کریں گی۔اشرف طاھر ٹی وی کی معروف اداکارہ روبینہ اشرف کے والد تھے۔ابھی کچھ دن ھی گزرے تھے کہ سلمی جبین اخبار کی ملازمت چھوڑ کر چلی گئیں۔میرے لیے یہ ایک صدمہ تھا۔۔۔۔وہ کہاں گئیں کسی نے مجھے نہیں بتایا۔اشرف طاھر نے مجھے کہا کہ آپ خواتین صفحے کی انچارج بن جائیں۔میں نے کہا میرے لیے ممکن نہیں۔انھوں نے اپنے پاس بیٹھے شخص کا تعارف کرواتے ھوئے کہا۔۔۔۔یہ اعجاز رضوی ھیں۔یہ آپ کی مدد کریں گے۔لیکن اتنی بڑی ذمہ داری اٹھاتے ھوئے میں گھبرا رھی تھی۔
اعجاز رضوی ھمارے گھر آئے انھوں نے میرے ڈیڈی سے بات کی۔۔۔۔اور ان کو یقین دلایا کہ میری پڑھائی کا ھرج نہیں ھوگا۔۔۔۔میں اس کی پڑھائی میں بھی اس کی رھنمائی کروں گا۔
اس دن سے معروف صحافی اعجاز رضوی میرے استاد بن گئے۔۔۔اور میں ان کو اعجاز بھائی کہنے لگی۔دو ماہ بعد ھی کوھستان بند ھوگیا۔لیکن اعجاز بھائی ایک اچھے استاد ، اچھے گائیڈ کی طرح ھر مشکل وقت میں میرا حوصلہ بڑھاتے رھے۔۔۔
کچھ دن پہلے طفیل اختر دادا نے یاد دلایا۔تو بہت سی پرانی یادیں تازہ ھوئیں۔سلمی جبین۔مشہور فلمی اداکار سید نور کی بھی استاد رھی تھیں۔اور کوھستان کے بچوں کے صفحے میں ان سے بھی لکھوایا

Comments (0)
Add Comment