لنبنا خالد
اگر ہم عورت کے حقوق کی بات کریں تو عورت کہتی ہے کہ میں بہت دکھی ہوں۔ مجھے تو ساری عمر دکھ ملے ہیں۔کبھی زندگی میں سکھ نصیب نہیں ہوا اور اسے حق سے محروم رکھا گیا۔ ساری عمر دکھ والی بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کیونکہ زندگی میں ریلیف بھی ملتے ہیں۔ کون ہے جو اسے اس کے حق سے محروم رکھتا ہے کون ہے جو اسے عزت نہیں دیتا کون ہے جو عزت کو داغ دار کرتا ہے وہ چیختی ہے چلاتی ہے کیا اس کی آہ و بکاہ سننے والا کوئی نہیں؟؟؟
عورت ہر دور میں مظلوم نظر آتی ہے عورت ہی سب سہتی ہے ادھر سے آواز آتی ہے عورت چکی میں پستی ہے أدھر سے آواز آتی ہے عورت پر مرد ظلم ڈھاتا ہے مارتا ہے اسے دھمکیاں دیتا ہے۔ ہراساں کرتا ہے میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ مرد مظلوم ہے مرد پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ شاید عورت پر ظلم برپا کرنے والا مرد ہی ہے۔ وہ مرد اسکا بھائی ، بیٹا ، شوہر ، باپ ہے۔ اور ہاں مرد کے علاوہ عورت بھی گھر میں دوسری عورت پر ظلم کرتی ہے۔ صرف مرد ہی ظالم نہیں اور ظلم نہیں کرتا۔ آج کی عورت مرد کو اس لیے پسند نہیں کہ وہ تیز ترار ہو گئی ہے اپنے حق پر بول لیتی ہے تراخ پڑاخ جواب منہ پر مارتی ہے عزت لحاظ کو مدنظر نہیں رکھتی پڑھ لکھ گئی ہے وہ سمجھتی ہے کہ اسکو لڑنے کا بات کرنے کا شعور آگیا ہے۔ حق کی بات کرنا آگیا ہے چونکہ اس کو حق دے دیا گیا ہے ۔ کہ بولو اپنے حق کے لیے آواز اٹھایا کرو اگر گھر میں کوئی اذیت دے تو تھانے رپورٹ کروا سکتی ہے۔ احتجاج کے لیے سٹرکوں پر آگئی ہے عورت اکثر اوقات اس طرح کے حالات پیدا کرتی ہے کہ اگر وہ رو کر جھوٹ بھی بولے تو سچ ہی مانا جائے گا ۔ ماضی میں عورتیں شوہر سے مار بھی کھا لیتی تھی گالیاں بھی کھاتی تھیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی تھیں وہ اس لیے کہ وہ ان پڑھ تھیں ان کو شعور نہیں تھا۔ اور نہ ہی والدین پشت پناہی کرتے تھے ماں بات کہتے تھے کہ اب سسرال سے تمھارا جنازہ ہی آئے گا تم نہیں آؤ گی وہ غربت میں بھی گزارہ کرتی صبر کا سمندر بن جاتی۔ میں نے ایک ماں کو دیکھا جو اپنے بچوں کو کچھ نہ ہونے پر چٹنی سے روٹی کھلاتی اور خود پانی پی لیتی اور پانی میں نمک مرچ ڈال کر روٹی کے ساتھ کھاتی فاقوں کی نوبت پر خود محنت مشقت کرکے بچوں کو سکول بھیجتی کہ میں ان پڑھ ہوں میرے بچے افسر بن جائیں۔ آج کے دور میں پڑھ لکھ کر بھی صبر نہیں ہے کیا فائدہ اس تعلیم کا جس میں ہم ایک دوسرے سے بد تمیزی سے بات کریں اور تمیز والی کوئی بات ہی نہ ہو ماضی کی عورت مظلوم تھی آج کی عورت اتنی مظلوم نہیں رہی میرے خیال سے عزت دی جاتی ہے اس کو اسلام نے جتنی عورت کو عزت دی ہے تو آواز اٹھانا اس کا حق ہے۔ بیٹی رحمت بن کر آتی ہے۔ تو گھر میں رحمت لاتی ہے باپ کے رزق میں اللٌٰہ برکت ڈالتا ہے بھائی بہن کا محافظ بنتا ہے باپ بیٹی کا سر پرست ہوتا ہے۔ شادی کے بعد اسکا شوہر سرپرستی کی ذمہ داری سنبھالتا ہے سسرال میں کوئی دل خراش واقعہ پیش آئے تو اب والدین یہ نہیں کہتے کہ اب تمھاری لاش آئےگی وہ کہتے ہیں اب سسرال والوں میں کسی کی لاش جائے گی ہماری بیٹی کو تنگ کیوں کیا موبائل پر مکمل فولو اپ ہوتا ہے۔ عورت مرد کے شانہ بشانہ تعلیم حاصل کررہی ہے ہر محکمے میں عورتوں کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکتی ہے۔ پسند کی شادی کا حق ہے وراثت میں حصہ ہے اس کو گاڑی چلانے کی آزادی ہے اب تو موٹر سائیکل پر بھی عورتیں سر عام نظر آتی ہیں۔سر سے فاطمہ کی ردا بھی اتار دی اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں دوپٹہ تو کہیں کہیں نظر آتا ہے ۔اب اس پر کبھی کسی کو مبالغہ آرائی نہیں کیونکہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے۔ راہ چلتا کوئی بھی مرد تنگ کرے تو کھری کھری سنا دیتی ہے جوتے تھپڑ سے بھی خاطر توازہ کر سکتی ہے۔ عورت میں تو بہت طاقت ہے بہت دم ہے اس کو اتنی آزادی دے رکھی ہے کہ اپنے گھر کو جنت بھی بنا سکتی ہے اسے چاہے دوزخ بھی بنا سکتی ہے۔ اپنی تربیت سے اپنے بچوں کو اچھے راستے پر گامزن کرسکتی ہے ۔اور دوسرا راستہ برائی کا ہے اس پر بھی چلانے کی طاقت رکھتی ہے عورت کو آزادی ہے کہ وہ شوہر کو سکون دے یا زندگی کو بے سکون کرے اور کونسی آزادی ابھی باقی ہے۔ عورت کی مکمل آزادی اس میں ہے کہ وہ اپنے گھر کو جنت بنانے میں مہارت رکھتی ہو عورت کی آزادی اس میں ہے کہ اگر پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں حصہ لینا ہے تو حضرت خدیجہ کے پیروکار بن جائے وہ تجارت خود کرتی تھیں حضرت عائشہ دینی تعلیم کو فروغ دیتی تھیں۔ حضرت فاطمہ جیسا طریقہ کار اپنائے گھر کے کاموں میں ہمت اور صبر کو اپنے اندر جگہ دے حضرت زینب دنیا کی عظیم الشان سکالر تھیں جنہوں نے کربلا میں اپنے خطاب سے یزید کا سر نیچا کیا آج بھی عورت کی آزادی اس میں ہے کہ اس میں ہمت و جرات ہے۔ کہ وہ اس دور کے یزید کا سر نیچا کر دے اتنی تو آزادی ہے آج کی عورت کو خدا کی قسم اس سے بہتر اور کوئی آزادی نہیں ہوسکتی ہے۔