احساس کے اندا
تحریر؛۔جاویدایازخان
میرا کالم “ایک نظر ادھر بھی ” جو آجکل شادیوں میں مشکلات سے متعلق معاشرتی مسئلے پر لکھا گیا تھا۔اس کالم کو لوگوں نے بہت پسند کیا اور اس پر بےشمار لوگوں کی راۓ اور کمنٹس بھی موصول ہوے ٔ ہیں ۔میرے کالمز کی ایک مستقل خاتون قاریہ نے مجھے لکھا کہ “آپ نے بہت اچھا لکھا ہے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے کالم میں آج کل بچیوں اور ان کے والدین کو پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ان کے مطابق آج کا مسئلہ شادی کرنا نہیں بلکہ شادی طے کرنا اور اس کا طریقہ ہوتا ہے ۔آجکل لڑکے والےبمعہ اپنے پورے خاندان کے بچیوں کے رشتے دیکھنے کئی کئی مرتبہ آتے ہیں ۔بار بار بچی کو تیار کرکے چاۓ پیش کرنے یا کسی اور بہانے ان کو دکھایا جاتا ہے اور پھر وہ جب کچھ پسند نہیں آتا تو سوچنے یا استخارے کا بہانہ کرکے چلے جاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی وجہ بنا کر انکار کر دیتے ہیں ۔اس طر ح کے واقعات عام ہیں جو ناصرف بچی کے لیے بہت اذیت ناک ہوتے ہیں بلکہ اسکے والدین کے لیے بھی شرمندگی کی وجہ بنتے ہیں ۔پھر اگر پسند آبھی جاۓ تو نزدیکی لوگوں سے اس بچی اور اسکے پورے خاندان کے بارے میں معلوما ت لی جاتی ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بچی پسند کرنے نہیں آۓ بلکہ کسی مویشی منڈی سے قربانی کا جانور تلاش کر رہے ہیں ۔ یہی نہیں آج کل تو بچی اور اس کے والدین کا پورا انٹرویو لیا جاتا ہے ۔آج کل ہر لڑکے اور اس کے گھر والوں کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی تعلیم یافتہ ہو ، برسر روزگار ہو ،گوری چٹی اور خوبصورت ہو ، عمر بھی زیادہ نہ ہو ،دراز قد اور سمارٹ ہو اب ذرا سوچیں کہ کم تعلیم یافتہ ، تھوڑی سی بڑی عمر ،پستہ قد ،گندمی اور سانولی رنگت ،موٹے نقش اور بے روزگا ر بچیوں یا ان کے والدین کا کیا قصور ہے ؟یوں ان بےچاری بچیوں کی عمر بڑھتی چلی جاتی ہے اور بالوں سے سفیدی جھانکنے لگتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غیر شادی شدہ افراد میں دن بدن ا ضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ہم اور ہمارا معاشرہ کس جانب رواں ہے ؟ کون اس تلخ حقیقت پر بات کرۓ گا ؟ آخر ایسا کیوں ہے ؟ “
میں اپنی اس قاریہ کی باتوں سے متفق ہوں اور روزمرہ زندگی میں یہ سب کچھ دیکھا بھی جارہا ہے ۔کہتے ہیں کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں لیکن یہ طے تو زمین پر ہی ہوتے ہیں ۔شادی کے لیے رشتے کی تلاش بھی اسی زمین پر ہی کی جاتی ہے ۔اس طرح کے طریقہ کار اور روایات بھی ہم خود ہی بناتے ہیں ۔ہماری سوچ اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے کچھ اور اور دوسروں کے لیے کچھ الگ ہی ہوتی ہے ،ہم اپنے پست قد بچے کے لیے تو دراز قد اور خوبصورت رشتہ چاہتے ہیں اور دوسروں کو اپنی معمولی شکل وصورت کی پستہ قد بچی بھی دینا چاہتے ہیں ۔ہر کوئی چاند سی دولہن ہی تو لانا چاہتا ہے ۔یہ دوہرا معیار معاشرہ کو متاثر کر رہا ہے ۔ دور حاضر میں والدین کے لیے سب سے بڑی مشکل اور پریشانی بچوں کا بہترین رشتہ تلاش کرنا ہے ۔ہم پہلے یہ سنتے تھے کہ لڑکیوں کے والدین ان کی شادی نہ ہونے سے پریشان ہوتے تھے کہ لڑکے والے آتے ہیں اور دیکھ کر چلے جاتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد کسی بہانے سے انکار کر دیتے تھے لیکن اب حالات یہ ہیں کہ لڑکوں کے گھر والے بھی ان کے رشتے نہ ہونے سے پریشان ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں جن کے والدین اچھے اور مناسب رشتوں کی راہ تک رہے ہیں اسی طرح پاکستان کے ہر تیسرے گھر میں شادی کے منتظر لڑکے اور لڑکیوں کی عمر ڈھلتی جارہی ہے ۔اس پریشانی کی وجہ رشتوں کی کمی نہیں بلکہ رشتوں کا ان کے بناۓ ہوۓ معیار پر پورا نہ اترنا ہے ۔ان کی خواہش ہے کہ ان کو داماد اور بہو تو تمام خوبیوں والی ملے لیکن اپنے بیٹے اور بیٹی میں یہ خوبیاں تلاش کرنے والوں کو برا سمجھا جاتا ہے ۔ہم بیٹی کے لیے داماد تو خود مختار چاہتے ہیں لیکن یہ خود مختیاری اپنے بیٹے کو دینا نہیں چاہتے ہیں ۔بیٹی کے لیے علحیدہ گھر پر زور دیتے ہیں لیکن بہو کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں ۔معاشرے میں ہر جانب یہ دوہرا معیار نظر آتاہے ۔پہلے خاندان میں کزن میرج کا بڑا رواج ہوا کرتا تھا۔جو رشتوں کو طے کرنے میں ایک بہترین طریقہ تھا کیونکہ یہ ناصرف بڑا آسان اور قابل قبول ہوتا تھا بلکہ بےشمار مسائل کا حل سمجھا جاتا تھا ۔یہ کامیاب شادیوں کی ایک بڑی وجہ بھی ہوا کرتی تھی ۔پھر جدید سائنس اور ریسرچ نے کزن میرج کے بارے میں منفی چیزیں اور نقصانات سامنے لانے شروع کر دئیے اور اس طرح ان شادیوں میں بڑی حد تک کمی آگئی ۔ممکن ہے کہ جدید سائنس کی ریسرچ سے سامنے آنے والی ان شادیوں کی مخالفت کی وجہ کچھ درست بھی ہو لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر کزن میرج نقصان دہ ہوتی تو اسلام شاید اس کی کبھی بھی اجازت نہ دیتا ۔سائنس تو اب تک ناجانے کتنے ہی معاملات میں یو ٹرن لے چکی ہے ۔بہرحال کزن میرج کی کمی نے بھی شادیوں کو مشکل بنا دیا ہے ۔ اس جدید اور تعلیم یافتہ دور میں بھی شادی کو مشکل بنانے میں ہمارے معاشرے میں ہونے والی وراثتی حق تلفی بھی ہوتی ہے ۔زمین یا جائداد کے تقسیم ہوجانے کا خوف بچیوں کی شادی میں روکاوٹ بن رہا ہے ۔وٹے سٹے کا رواج بھی بیشتر جائداد کی تقسیم روکنے کی وجہ سے فروغ پاتا ہے ۔بہر حال آج کے دور میں نئی رشتہ داری کرنا جوۓ شیر لانے کے مترادف ہے ۔اس بارے میں لوگوں کی مایوسیاں اور پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔نوجوان بچے اور بچیاں اس وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ایسے میں شادی دفتر یا میرج بیورو دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں جبکہ پہلے لوگ یہ کام فی سبیل اللہ اور ثواب کے لیے کیا کرتے تھے ۔۔پچھلے دنوں ایک میرج بیور و والے نے بتایا کہ وہ پچاس ہزار روپے صرف رجسڑیشن فیس لیتا ہے ۔پھر بچی اور بچے کے کوائف بمعہ تصویر دینی پڑتی ہے ۔اکثر لوگ تصویر دیتے ہوۓ ہچکچاہٹ بھی محسوس کرتے ہیں ۔
پاکستان بھر میں کرائے گئے جیو نیوز کے ایک عوامی سروے میں 84 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ رشتے ڈھونڈنے کے لیے دوستوں یا رشتہ داروں سے رجوع کرتے ہیں، 13 فیصد رشتہ کرانے والوں سے رابطہ کرتے ہیں اور صرف ایک فیصد ایسے ہیں جو رشتہ کے لیے ایپس اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ مناسب رشتے نہ ملنے کی وجوہات سے متعلق سوال کے جواب میں 41 فیصد نے کہا بیروزگاری، 17 فیصد نے کہا تعلیم کی کمی اور دلچسپ طور پر 15 فیصد نے کہا کہ مناسب رشتے اس لیے نہیں ملتے کہ لوگ اپنے بارے میں غلط یا جھوٹی معلومات دیتے ہیں۔ مردوں سے پوچھا گیا کہ رشتے کی تلاش میں اُن کی ترجیح کیا ہوتی ہے؟ تو 25 فیصد نے کہا کہ وہ لڑکی میں اچھی تعلیم چاہتے ہیں اور 21 فیصد نے گورا رنگ،بڑا قد اور خوبصورتی کو اپنی پہلی ترجیح بتائی۔ صرف 6 فیصد نے کہا کہ وہ دیکھتے ہیں لڑکی کتنی مذہبی ہے اور خاندان کیسا ہے ؟ اسی طرح جب خواتین سے پوچھا گیا کہ رشتے کی تلاش میں اُن کی توقعات کیا ہوتی ہیں ؟ تو 47 فیصد نے کہا کہ لڑکے کی اچھی تنخواہ ہو، 12 فیصد نے کہا لڑکے کا اپنا گھر ہو، 8 فیصد نے چھوٹی فیملی کو اپنی ترجیح بتائی جب کہ لڑکیوں میں سے صرف 3 فیصد کی ڈیمانڈ رہی کہ لڑکا مذہبی ہو۔ان حالات اور اس سوچ میں شادی کا فیصلہ کرنا کس قدر مشکل ہوچکا ہے اس کا ندازہ اس سروۓ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ان معیار پر پورا اترنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہو نگے ؟
پہلے دور میں ہمارے خاندان بلکہ بیشتر خاندانوں میں ایک خوبی یا اچھی روایت یہ ہوا کرتی تھی کہ اگر کوئی کسی لڑکی کا رشتہ مانگنا چاہے تو کوشش کرتے تھے کہ کسی تقریب وغیرہ میں لڑکی دیکھ لیں اس طرح لڑکی یا ان کے خاندان والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا اور اگر لڑکی پسند آئی تو رشتہ مانگنے اُن کے گھر چلے جاتے تھے ورنہ اس بارے میں سوچتے ہی نہیں تھے ۔کسی کے کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی کہ بچی کو دیکھ لیا ہے یا پھر پسندکرلیا گیا ہے ۔لوگوں کو کو اپنے گاؤں کے ہر گھر کا تو پتہ ہوتا ہے لیکن اگر کسی دور گاؤں میں رشتہ مانگنے جاتے ہیں تو گرمی میں پانی پینے کے بہانے یا کسی اور بہانے سے لڑکی کے گھر میں چلے جاتے ہتھے اور لڑکی دیکھ کر واپس ہو جاتے تھے اور اِس طرح کے فیصلوں سے لڑکی سلیکٹ اور ریجیکٹ کی اذیت اور احساس کمتری سے بچ جاتی تھی اور گھر والے بھی خاندان والوں میں شرمندگی سے بچ جاتے تھے ۔اس وقت خاندانی شرافت ،سلیقہ شعاری ،اور سیرت کو شکل وصورت اور قد وقامت پر ترجیح دی جاتی تھی ۔ لیکن اب یہ سب روایات ماضی کا حصہ بن چکی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب ہم سب کا مسئلہ ایک ہی ہے تو اب پھر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟