روداد خیال
صفدر علی خاں
دنیا میں امن کا راگ الاپنے والے ہی دہشتگردوں کی حمایت کرنے لگیں تو پھر مظلوم بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔صہیونی طاقتوں نے یکجا ہوکر فلسطینیوں کو انکے اپنے وطن میں یرغمال بنایا ہوا ہے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ عالمی برادری اس ناانصافی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور جب کوئی مزاحمت کرتا ہے تو دنیا کی بڑی طاقتیں اسکی حمایت میں واویلا شروع کر دیتی ہیں۔امن کے نام پر ناانصافی کی جاتی ہے ۔فلسطینوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ، فضائی بمباری سے معصوم بچے شہید ہورہے ہیں ،یہودی فوجی فلسطینی علاقوں پر دندناتے انکی عزتیں پامال کرتے رہیں اورپھر یہ چاہتے ہیں کوئی آواز بھی نہ اٹھائے کسی قتل پر کوئی صف ماتم نہ بچھائے ،عزتوں کی پامالی پرکوئی مزاحمت نہ کرے اگر ان حالات میں جب مظلوم ہتھیار اٹھالے تو امن کی یاد آجاتی ہے ،صہیونیوں کی یہ نصف صدی سے خواہش رہی ہے کہ وہ ظلم کرتے رہیں اور امن بھی رہے ،ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ۔2006ء ہی کو دیکھ لیں ،اسرائیل کی بربریت کا شکار معصوم بچے بنتے رہے ،لبنان کے علاقوں پر یہودی فوجیوں نے قبضہ کرلیا اور پھر جب لبنانی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ نے جواب دیا تو انکے چھکے چھوٹ گئے ،اسرائیل کو اپنی تباہی نظر آنے لگی ،حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو ملیامیٹ کرنے کے دعوے پر عمل شروع کیا تو امن کے نام پر جنگ بندی کا واویلا شروع کردیا ۔2006ء کی جنگ میں اسرائیل حزب اللہ کے ہاتھوں اپنی شکست پر کچھ عرصہ محتاط رہا مگر پھر سے جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا ۔جس پر 20دسمبر 2016ء کواسرائیل کی داخلی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ جنرل گیورا ایلینڈ کا کہنا تھا کہ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے، لہذا اسرائیلی حکام کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔اسرائیلی جنرل کا کہنا تھا کہ صہیونی حکام کو اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ حزب اللہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوچکی ہے۔اس سے پہلے بھی کئی مزاحمتی تحریکیں چلیں اور یہودیوں کی جارحیت پر بھرپور جواب دیئے گئے ۔مگر دنیا کی بڑی طاقتوں کے حمایت یافتہ یہودی جدید ترین اسلحہ سے لیس ہوکر عربوں کے گھروں پر قبضے کرتے چلے گئے ۔دنیا کے قدیم تنازع کو ہر آنے والے سال میں مزید الجھایاجاتا رہا ، فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب ہجرت کرکے اس سرزمین پر آنے والے یہودیوں نے فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کرنا شروع کیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھالا تو یہاں عرب اکثریت تھی ،یہودیوں کو بسانے کے پلان پر تب سے عمل شروع ہوا ،اس تنازع میں اس وقت شدت آئی جب برطانیہ نے یہودی کمیونٹی کے لئے فلسطین میں “قومی گھر”کی تشکیل کا آغاز کیا۔یہاں سے یہودیوں نے خطے کو آبائی علاقہ قرار دینا شروع کیا جسکی فلسطینی عربوں نے مخالفت کی ۔1920ء سے 1940ء کی دہائی کے دوران یہاں آنے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔پھر دوسری جنگ عظیم میں ہولوکاسٹ سے بچ کر آنے والے یہودی بھی یہاں پناہ گزیں ہوگئے۔ اس ناانصافی پر یہودیوں اور عربوں کے درمیان پرتشدد واقعات بڑھنے لگے ۔تاہم 1948ء میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کئے بغیر یہ خطہ چھوڑ کر چلے گئے ۔جسکے بعد یہودی رہنمائوں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا ۔فلسطینیوں نے اسکی مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی ۔لاکھوں فلسطینیوں کو انکے گھروں سے بے دخل کیا گیا اس واقعہ کو النکبہ (تباہی )کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اگلے سال جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسرائیل نے زیادہ تر خطے کا کنٹرول سنبھال لیا ۔1967ء میں ایک اور جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس ، غرب اردن کیساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں ،غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کرلیا ۔فلسطینی زیادہ تر پناہ گزیں بن گئے ،فلسطینیوں کو انکے گھروں میں لوٹنے نہیں دیا گیا ۔برسوں سے تبدیل ہونے والے حالات آج بھی کشیدگی کا سبب ہیں ،مشرقی بیت المقدس ،غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں رہنے والے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تنائو شدت اختیار کرتا چلا گیا ،دنیا اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور ظلم وتشدد پر خاموش رہی ،اسرائیل کی غیرقانونی ریاست کو تسلیم کرنا ہی بہت بڑا ظلم ٹھہرا ،اس پر فلسطینیوں کو انکے حق سے محروم رکھنے کی خاطر جبر وتشدد کیا گیا ،پھر 7اکتوبر2023 ء کی صبح فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی جانب سے اسرائیل پر پانچ ہزار راکٹ داغنے پر نئی جنگ چھڑگئی۔
حماس کے حملوں میں ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 300 سے تجاوز کرگئی، 159یہودی زخمی ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج کے مطابق اب بھی اسرائیل کے 22 مقامات پر جنگ جاری ہے۔اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 232 ہوگئی تھی ، 1700 سے زائد زخمی بھی ہوئے ۔حماس کے حملے کو اسرائیل کی رسوائے زمانہ خفیہ ایجنسیاں روکنے میں ناکام رہیں ۔دنیا بھر کی طاقتوں کے تعاون کے باوجود اسرائیل حماس کو بڑے حملے سے روک نہیں سکا ۔بادی النظر میں اسرائیل کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے ۔حماس کے خلاف کارروائیوں کے انچارج سمیت سیکڑوں یہودی فوجیوں کو حماس نے قیدی بنا لیا ہے ۔خطے میں امن کا پھر راگ الاپ کر فلسطینیوں کی مزاحمت کو روکنے کی کوششوں کا آغاز
ہونے جارہا ہے ۔لیکن فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا قیام ہی اب مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت بنے گا ۔پاکستان نے یہودی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہمیشہ اظہار یکجہتی کیا ہے،دنیا کو پاکستان کی پیروی کرنی چاہئے تاکہ ظلم کے خاتمے سے امن کی راہیں کھل سکیں ،اب ایک بار پھر موقع ہے کہ عالمی برادری فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے ختم کرائے ،کیونکہ معصوم فلسطینیوں پر ظلم کے خاتمے سے ہی خطے میں حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے کچھ یہی صورتحال برصغیر کی ہے،مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی ناجائز تسلط اسی چیز کی غمازی کرتا ہے اور پچھتر سال سے یہ خطہ بدامنی کا شکار ہے۔اقوام عالم کا اولین فرض ہے کہ وہ بلا رنگ و نسل لوگوں کو حق خود ارادیت و آذاد ماحول میں سانس لینے کے حق میں ان کی مدد کرے۔