نفرت،تعصب ،جہالت ،غربت ختم کرنے کے راستے

مہمان کالم ۔۔۔۔۔حیدرقریشی (جرمنی)

ضمنی۔۔۔(یورپی یونین کی طرز پر سارک یونین)

          مورخہ  17 ستمبر2024 ء کو محترمہ عالیہ شاہ کا ایک ویڈیو پروگرام یوٹیوب پر آیا۔اس کا لنک یہاں دے رہا ہوں۔

اس میں انہوں نے سادھ گورو جی کا کچھ ذکرِ خیر کیا اور ان کی حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کا ذکر کیا۔اس میں برِ صغیر میں امن اور یکجہتی کے لیے گورو جی نے فکر انگیز باتیں کیں۔برِ صغیر کے علاوہ انہوں نے عالمی یکجہتی کے بارے میں بھی اچھے جذبات اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔عالیہ شاہ صاحبہ نے ان کے ان تصورات کی بہت سراہنا کی اور بتایا کہ ان کی باتوں کو بڑے بڑے دانشور اور مفکرین بھی بہت غور سے سنتے ہیں۔مجھے بھی سب سن کر اچھا لگا۔میں نے اپنی خوشی کا اظہار اسی وقت کمنٹ سیکشن میں ان الفاظ میں کر دیا۔

         ”آپ کا پروگرام سنا، اچھا لگا۔سادھ گورو جی کا تصور بہت اچھا لگا۔مجھے اس لیے بھی یہ باتیں اچھی لگیں کہ میں بیس بائیس سال پہلے اپنے انداز میں یہ باتیں لکھ چکا ہوں۔جرمنی میں رہ کر یورپی یونین کے ماڈل کو دیکھ کر مجھے خیال آیا تھا اور میں نے ”سارک یونین کا قیام،وقت کی ضرورت“لکھا تھا۔کالم کا لنک دے دیتا ہوں۔کاش ایسا سچ مچ ہو سکے۔

https://www.punjnud.com/book/sark-union-ka-qiyam-waqt-ki-zaroorat/“

      یہ عام سے کمنٹ تھے،میں نے سادھ گورو جی کی بات پر امید جتائی تھی،ادب اور تہذیب کے ساتھ یہ بھی بتایا تھا کہ بیس بائیس سال پہلے میں نے بھی ایسا کچھ سوچا تھا۔ایک طرح سے مجھے خوشی تھی کہ مجھ جیسے عام سے بندے کو جو باتیں سوجھی تھیں وہ اتنے بڑے مفکرین کے ذہن میں بھی آ رہی ہیں۔سادھ گوروجی عالمی شہرت کے حامل ہیں،ان کی کہی ہوئی باتیں دنیا کے بااثر لوگ بھی توجہ سے سنتے ہیں۔چنانچہ مجھے خوشی ہوئی کہ برصغیر کے لیے امن کے خواب کی تعبیر کی جستجو تو شروع ہوئی ہے۔لیکن پتہ نہیں عالیہ شاہ صاحبہ کو میرے کمنٹس میں کیا برا لگا کہ انہوں نے چند منٹ کے اندر میرے کمنٹس ڈیلیٹ کر دیئے۔اس پر مجھے افسوس ہوا اور میں نے مناسب سمجھا کہ یہ روداد قارئینِ ادب کی خدمت میں پیش کر دوں۔اپنے پرانے مطبوعہ خیالات کے اقتباس پیش کرنے سے پہلے یہ وضاحت کردوں کہ انسانی مسائل پردور دراز اور الگ الگ رہنے والوں کے خیالات بھی ملتے جلتے ہو سکتے ہیں۔مشترکہ مسائل پر اچھا سوچنے والے بعض ذہنوں میں قدرتی طور پربھی ہم آہنگی ہوجاتی ہے۔یہ ذہنی توارد ہوتا ہے۔

           میرا کالم”انڈوپاک مسائل اور مستقبل“22 جولائی 2002 ء کو شائع ہوا تھا اس کا حوالہ میں نے اپنے ایک اور کالم ”سارک یونین کا قیام،وقت کی ضرورت“میں بھی دیا تھا۔اسی کالم سے دو متعلقہ اقتباس یہاں پیش کر دیتاہوں۔میری یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے اور میرے پاس اس کی مطبوعہ چندجلدیں بھی محفوظ ہیں۔ 

           ”میں نے اپنے کالم (ذیلی عنوان ”انڈوپاک مسائل اور مستقبل“)میں انڈیا اور پاکستان کے عوام کے اصل دکھوں،مصائب اور ضروریات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان ضروریات کو پورا کرنے اور دکھوں اور مصائب کو دور کرنے کے لئے مشترکہ جدو جہد کی ضرورت ہے۔اس کے لئے میں نے خطہ کے دیرینہ مسائل کے ایماندارانہ حل کے ساتھ وسیع اشتراک عمل کی طرف توجہ دلائی تھی۔یورپی یونین کی طرز پر سارک یونین کا قیام ہی ہمارے سارے عوام کے دکھوں کا علاج ہے اور یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔میرے لئے یہ اہم نکتہ ابھی بھی ایک خواب جیسا ہے،لیکن مجھے داخلی طور پر تحریک ہوئی ہے کہ میں اس بارے میں ایک بار پھر اور قدرے وضاحت کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے مقتدر سیاسی حلقوں اور موثر صائب الرائے دانشوروں کو اس طرف توجہ دلاؤں۔“

       ”امریکی مفادات کی تکمیل کرنے کے بجائے سارک ممالک کو بالعموم اور پاکستان اور انڈیا کو بالخصوص مل بیٹھ کر نہ صرف اپنے مسائل کو حل کرنا چاہئے بلکہ اشتراک عمل کا ایسا منصوبہ وضع کرنا چاہئے جس میں سارک ممالک کو یورپی یونین کی طرز پر فعال اور موثر بنایا جا سکے۔نیک نیت کے ساتھ قدم آگے بڑھایا جائے تو نہ صرف اس سے دلوں میں سرایت کرجانے والے بہت سارے زہریلے تعصبات کا تدریجاََ خاتمہ ہوگا بلکہ اس سے پورے خطہ میں امن و استحکام قائم ہو سکے گا۔فوجی اخراجات میں زبردست کمی کے ساتھ اس خطہ کے ممالک کو غربت کے خاتمہ کے لئے کسی بیرونی قرض یا امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔

    سارک یونین کو یورپی یونین کی طرز پر متحرک اور موثر بنانا ہی اس خطے کے عوام کے مفاد میں ہے۔اس ”زمینی حقیقت“کا ادراک کرلینے والے ہی اس خطہ کے عوام کے دکھوں اور مصائب کا خاتمہ کر سکیں گے، جو قائدین اس حقیقت کے شعور سے محروم رہیں گے وہ اپنے ملک کے ساتھ برصغیر کے سارے عوام کو بھی دکھوں میں مبتلا رکھنے والے قائدین ہوں گے۔سارک یونین آج کے وقت کی ضرورت1 ہے!“ (کتاب”منظر اور پس منظر“از حیدر قریشی کا کالم ”سارک یونین کا قیام،وقت کی ضرورت“۔5 جنوری 2003 ء)

        یہاں تک جنوبی ایشیا یا برِ صغیر کی بات ہے۔اس سے بھی پہلے میں نے علاقائی امن کے ساتھ گلوبل امن کے لیے ایک عالمی حکومت کے قیام کا خواب بھی بیان کیا تھا۔جب  انڈیا اور پاکستان نے آگے پیچھے ایٹمی دھماکے کیے تھے تب میں نے اردو،ہندی دونوں سکرپٹس میں ایک چھوٹی سی کتاب”ایٹمی جنگ“ ترتیب دی تھی۔اسے معیار پبلی کیشنز نئی دہلی  نے شائع کیا تھا۔اس کے پیش لفظ میں سے عالمی حکومت کے قیام کے میرے خواب کو سمجھا جا سکتا ہے۔اب اپنی کتاب”ایٹمی جنگ“کے پیش لفظ کا ایک اقتباس بھی پیش کر دیتا ہوں۔

      ””حوّا کی تلاش“، ”گلاب شہزادے کی کہانی“اور ”کاکروچ“۔۔۔یہ تینوں کہانیاں کرّۂ ارض پر انسانیت کو درپیش ایٹمی تباہی کے بارے میں میرے احساس اور میری تشویش کی کہانیاں ہیں۔ایسے وقت میں جب برِ صغیر کے عوام کو بھی اس ہولناک تباہی کا اندازہ ہو گیا ہے،میں اپنی تینوں کہانیاں ایک ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ انڈیا اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے سیاسی پس منظر سے قطع نظر، میرے لیے یہ نئی صورت حال قدرے 

Comments (0)
Add Comment