ڈیرے دار
سہیل بشیر منج
سال 2016 میں مجھے ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے ایک سرکاری ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا چونکہ کسی دوسرے ملک کے سرکاری ہسپتال جانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا ہسپتال کی بلند و بالا عمارت ، نظام صحت، ہسپتال کی صفائی علاج کی جدید ترین سہولتیں مریضوں سے زیادہ ڈاکٹر ،نرسز اور دوسرے سٹاف دیکھ کر میں حیرت میں مبتلا ہو گیا ہسپتال اتنا صاف ستھرا تھا کہ شاید پاکستان کا کوئی فایئو سٹار ہوٹل بھی اتنا صاف نہ ہو میرا اس ہسپتال میں متعدد بار جانا ہوا ہر دفعہ دل میں یہی خواہش ہوئی کہ کاش وطن عزیز میں بھی کوئی ایسا ہسپتال ہو جو سرکار کے زیر انتظام بھی ہو اتنا جدید اور صاف ستھرا بھی ہو اللہ کریم نے میری اس خواہش کو جلد ہی پورا کر دیا جب میں نے حکومت پنجاب کی طرف سے بنایا گیا پی کے ایل آئی دیکھا بے شک یہ ایک ابتدا تھی لیکن یہ ہسپتال کسی طور بھی کسی بین الاقوامی ہسپتال سے کم نہیں تھا
آ ج کسی مریض کی عیادت کے لیے میرا انڈس ہسپتال جو بلی ٹاؤن جانا ہوا دیکھ کر بے حد خوشی محسوس ہوئی ہسپتال انتہائی صاف ستھرا کشادہ اور جدید سہولیات سے ہم آ ہنگ تھا اپنے مریض کی عیادت کے بعد میں نے ہسپتال کا چکر لگایا ہر وارڈ ،او پی ڈی ایمرجنسی بالکل ملائشیا والے سرکاری ہسپتال جیسی تھی مریضوں کا علاج ان کی تضحیک کیے بغیر کیا جا رہا تھا انتظار گاہ میں مریضوں اور ان کے لواحقین کے بیٹھنے کے لیے اچھا اور وسیع انتظام تھا ہر مریض اپنا کارڈ دکھاتا اور اسے ایک ٹوکن دے دیا جاتا وہ انتظار گاہ میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتا سامنے لگی خود کار مشینوں پر اس کا نمبر آتے ہی وہ ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا ڈاکٹر اس کا تفصیلی معائنہ کرتا اس کے لیے مطلوبہ ٹیسٹ اور ادویات لکھ کر دیتا تمام ٹیسٹ اور ادویات بھی ہسپتال کے اندر ہی سے مل رہی تھیں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ہسپتال کی انتظامیہ سے ملاقات کی خواہش ہوئی ایک سکیورٹی گارڈ کی مدد سے ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر تسمان صاحب کے پاس جا پہنچا انہوں نے میرا پرتپاک استقبال کیا میں ان کے پاس بیٹھ گیا اپنا تعارف کروایا اور عزت افزائی پر ان کا شکریہ ادا کیا ہسپتال انتظامیہ، طریقہ علاج اور اس پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی وہ بتا رہے تھے کہ یہ ہسپتال انڈس انتظامیہ اپنی مدد آپ کے تحت چلا رہی ہے جس کا انحصار مکمل طور پر صدقات زکوۃ عطیات اور خیرات پر ہے
یہ سن کر اور بھی خوشی ہوئی کہ پاکستان میں اللہ کی راہ پر خرچ کرنے والوں کی کمی نہیں ورنہ اتنے بڑے ہسپتال اور ادارے چلانا آسان نہ ہوتا اس ادارے کو حکومت کی طرف سے کوئی معاونت حاصل نہیں بلاشبہ ایسے ادارے ہی آپ کی زکوۃ خیرات اور عطیات کے مستحق ہیں میں پاکستان کے تمام مخیر حضرات سے اپیل کروں گا کہ برائے کرم وہ اپنے عطیات اسی ادارے کو دیں یہ بلاشبہ غریب لوگوں کو عالمی معیار کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے اور میں خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا ڈاکٹر عبدالباری خان کو کہ جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے
پاکستانی عوام کے لیے اتنا بڑا اور مفید پروجیکٹ شروع کیا میرے خیال میں ایسے لوگ ہی ستارہ امتیاز ، حلال امتیاز کے ساتھ ساتھ تمام بڑے سرکاری اعزازات کے مستحق ہیں
پھر میری نظر ہمارے سرکاری ہسپتالوں پر پڑی جن میں مریضوں کا بے انتہا رش،
گندگی بنیادی سہولتوں کا فقدان بدانتظامی کرپشن انسانیت کی تذلیل سب کچھ ایک ساتھ میسر ہے آخر پاکستان کے سرکاری ہسپتال کب ٹھیک ہوں گے
جناب وزیراعلی اگر آپ چاہتی ہیں کہ پنجاب کو صحت کی بہترین سہولیات سے آراستہ کیا جائے تو برائے کرم ایک چکر انڈس ہسپتال کا ضرور لگائیں اگر ان کا طریقہ علاج اور انتظامی ڈھانچہ آپ کو پسند آ جائے تو پھر انڈس انتظامیہ کو دعوت دیں اور ایک ایک کر کے تمام سرکاری ہسپتال ان کے ساتھ مل کر چلائیں اس سے شاید ہمارے ہسپتالوں میں کوئی بہتری آ جائے
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال رائیونڈ جب تک انڈس کے زیر انتظام رہا ہے وہاں پر لوگوں کو بہترین علاج کی سہولت میسر رہیں برائے کرم پھر سے کوئی ایسی ترتیب بنائیں کہ انڈس کے ساتھ مل کر ہمارے سرکاری ہسپتالوں کو بہتر بنایا جائے
اگریہ ممکن نہ ہو تو ہر سرکاری ہسپتال کے لیے بیس سے پچیس افراد انڈس انتظامیہ سے لے لیں ایک سال کے لیے تمام بڑے ہسپتالوں کا انتظام ان کے حوالے کر دیں آپ دیکھیں گے کہ چند ماہ میں ہی اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہو جائیں گے
اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر یوں کر لیں کہ ہمارے تمام بڑے ہسپتالوں کے انتظامی ڈھانچے میں سے بیس افراد فی ہسپتال کا انتخاب کریں انہیں انڈس انتظامیہ سے ٹریننگ دلوائیں اور پھر واپس انہی ہسپتالوں میں بھیج دیں شاید اس سے بھی کچھ بہتری ہو جائے
اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھرکم از کم بڑے ہسپتالوں کی صفائی کا انتظام انڈس کے حوالے کر دیں علاج معالجہ جیسا بھی ہو لیکن ہمارے ہسپتال کم از کم صاف ستھرے ہو جائیں گے
اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر اپنے صوبے کی حد تک محکمہ فوڈ کو تھنڈر الرٹ کر دیں خوراک میں ملاوٹ کرنے اور جعلی دودھ بنانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کروائیں ملاوٹ کرنے والے افراد اور گروہوں کے خلاف لمبی قید با مشقت کے ساتھ بھاری جرمانے عائد کریں تاکہ لوگ نہ بیمار ہوں نہ ہسپتالوں میں اتنا رش پڑے اور نہ ہی علاج کرنا پڑے
جناب وزیراعلی پنجاب کے ہسپتال اس وقت بھی پنجاب کی عوام کے علاوہ چاروں صوبوں کے لوگوں کو حسب توفیق علاج کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں ہمارے پاس موجود ہسپتال تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ برداشت کرنے کے سے قاصر ہیں اگر حکومتی بجٹ اجازت دے تو لاہور کے چاروں داخلی راستوں پر بڑے ہسپتال بنائے جائیں تاکہ پہلے سے موجود ہسپتالوں