تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی
ہماری زندگی کے ہر دور میں کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو ہم سے خواہ مخواہ بیر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہماری تعلیمی زندگی سے لے کر دفتروں، ہوٹلوں، ہمسائیوں، سسرال، سوشل میڈیا غرض ہر مقام پر پائے جاتے ہیں۔
یہ ہمارے رشتہ داروں، دوستوں، تعلق داروں میں سے ہونے کے علاوہ ایسے لوگوں پر بھی مشتمل ہوتے ہیں کہ جن سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود وہ ہم پر صبح دوپہر شام پوری نظر رکھتے ہیں۔ جس طرح پھیکا پھل دیکھنے میں پرکشش لیکن زائقے سے محروم ہوتا ہے، بالکل اسی طرح یہ لوگ دیکھنے میں اپنے لیکن خلوص سے عاری ہوتے ہیں۔
یہ لوگ ہر وقت اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ ہم سے کہیں کوئی غلطی ہو اور یہ اس کو کیچ کر کے کیش کر لیں۔ یعنی بات سے بتنگڑ اور رائی سے پہاڑ بنا کر ہماری اچھی ساکھ، ہماری ترقی یا ہماری کسی نا کسی صلاحیت کی راہ میں ایسی دیوار کھڑی کر دیں کہ ہم پریشان ہوجائیں۔ یہ خواہ مخواہ کے مخالفین اتنے فنکار ہوتے ہیں کہ ہماری عام اور سیدھی سی بات کے بھی کئی مطلب نکال لیتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے بندہ پریشان ہوجاتا ہے کہ اس کے وہم و گمان سے دور بات اس کے منہ سے کیسے نکل گئی۔
یہ طے ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ بخیل ہوتے ہیں۔ یہ ہماری خوشیوں اور کامیابیوں سے حسد کرتے ہیں۔ ہماری کوئی نہ کوئی صلاحیت یا ادا ان کو متاثر کرتی ہے مگر جب یہ وہاں تک نہیں پہنچ پاتے تو منفی احساسات کے زیر اثر ہم سے حسد کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس خواہ مخواہ کے بیر میں وہ اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ اپنی تسکین کے لیے موقع بے موقع ہم ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں ہمارا مذاق اڑے اور تضحیک ہو۔ مگر یہ نادان حقیقت میں ہمارا نہیں بلکہ اپنا ہی تماشا بنا رہے ہوتے ہیں کیونکہ دیکھنے والے روٹی کو گوگو نہیں کہتے بلکہ سب سمجھ رہے ہوتے ہیں۔امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ:
’’ حسد وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا، یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کیا۔اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا ، یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی پر حسد کیا اور اُس کو قتل کردیا۔”
یعنی حسد بخیلی خواہ آسمان پر ہو خواہ زمین پر، یہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرواتی ہے۔ ایسے لوگ اپنی آگ میں خود جلتے ہیں اور اللہ تعالی کی ناراضگی وصول کرتے ہیں۔
میرے خیال میں ایسے لوگوں کا حل انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرنا ہے۔ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہوئے مزید محنت سے اپنی خوبیوں میں نکھار لانا اور عزتین سمیٹنا ہی ان کی موت ہے۔ بھولے سے بھی کبھی ان کی سطح پر نہیں اترنا چاہیے کیونکہ وہ اسی بات کے منتظر ہوتے ہیں۔ ہمارا ردھم توڑ کر اور پریشان و زچ کرنے سے انہیں تسکین ملتی ہے۔خاموشی سے اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اور اپنی زات پر کام کر کے نکھار لاتے ہوئے ایسے لوگوں کی یہ تسکین چھین لیجیے۔ ہمیشہ مثبت رہیے کیوں اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ مثبت لوگوں کو اللہ کبھی زیر نہیں ہونے دیتا۔
اگر اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ دیے جائیں تو پھر یہ طے ہے کہ قدرت کی جانب سے خود بخود ہی حاسدین، منافقین اور شر پسند عناصر کی رسوائی کے اسباب پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی منافقت عیاں اور چالیں ناکام ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں مثبت طرز فقر و عمل اپناتے ہوئے اپنا معیار اور صلاحیتیں بہتر سے بہترین بنانے کے لیے سرگرم عمل رہنا چاہیے۔ یہ احساس کمتری یا احساس برتری میں مبتلا پھیکے پھل کچھ بھی کر لیں آپ کے معیار تک پہنچنے میں اپنی ناکامی کو سازشوں اور نظر اندازیوں سے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ان جیسا نہ بننا ہی آپ کو ان سے ممتاز رکھے گا۔ اخلاق، خود تراشی، اللہ کی زات پر یقین، مثبت اپروچ اور خود سے مخلص لوگوں تک محدود ہوکر زندگی کو انجوائے کیجیے اور خدا کی وانڈ سے غیر مطمئن سازشیوں کو بے اطمینانی کی آگ میں سلگ سلگ کر جلتا کڑھتا رہنے دیجیے۔